2 66

وطن کی جامعات کا حال

کسی زمانے میں پورے پاکستان میں ایک ہی پنجاب یونیورسٹی تھی جہاں ملک بھر سے علم کے پیاسے متلاشی آتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ہرصوبے میں یونیورسٹیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں اور آج الحمدللہ’ پاکستان کی برکت وفیض سے ہر صوبہ کے کم وبیش ہر بڑے ضلع میں ایک نہ ایک یونیورسٹی ضرور قائم ہے۔ یونیورسٹی کا قیام یقینا تعلیم کی ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ جامعات ہی کسی ملک کے وہ ادارے ہوتے ہیں جو ملک کی ترقی کیلئے مناسب وضروری افراد کی تعلیم و تربیت کیلئے کام کرتے ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ پاکستان میں ان جامعات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو وہ کردار ادا نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا۔ اس بات کو اس انداز سے اگر دیکھا جائے تو شاید بات واضح ہوسکے کہ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کی جامعات نے جو مسلمان شخصیات پیدا کیں’ قیام پاکستان کی سینکڑوں جامعات پبلک اور پرائیویٹ دونوں نے ملکر اتنی شخصیات پیدا کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سوچنے اور سوال کرنے کامقام نہیں ہے کہ سینکڑوں یونیورسٹیاں اور ان کو چلانے کیلئے ہائیر ایجوکیشن اسلام آباد کو اربوں روپے کا بجٹ دینے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد چاروں صوبوں میں ایچ ای ڈی کے نام جامعات کو چلانے کیلئے الگ ادارے جن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ پھر بھی وہ نہیں نکلتا جو ملکی ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
در اصل پاکستان میں اس کی دو اہم وجوہات ہیں’ ایک یہ کہ وطن عزیز میں پرائمری ایجوکیشن یعنی تعلیم کی نرسری بہت کمزور ہے جب بنیاد کمزور ہو تو ظاہری بات ہے کہ اس پر مستحکم عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات سے فارغ ہونیوالے طلبہ میں بہت اس پائے کے ہوتے ہیں جو جامعات میں اساتذہ بن کر وہ کردار ادا کریں جو ملکی ترقی کیلئے نا گزیر سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ پالیٹکس (سیاست) ہے جس نے ہماری جامعات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیاست کئی طرح جامعات کی کارکردگی کی نشوونما میں حائل ہے’ پہلا مرحلہ اساتذہ کی سیاست کا ہے’ جامعات میں کم وبیش پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے اساتذہ وطلبہ ونگز کام کرتے ہیں۔ بعض جامعات میں اساتذہ کے سیاسی دھڑے بہت مضبوط ہوتے ہیں اور وہ اپنی سیاسی جماعتوں کی آشیر واد و حمایت کیساتھ جامعات کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وائس چانسلروں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور دانا وائس چانسلرز ایسے دھڑوں کی تائید وحمایت حاصل کرکے جامعات کے بنیادی معاملات ان کے حوالے کر دیتے ہیں جس سے یہ مخصوص نیلی آنکھوں والا دھڑا سیاہ وسفید کامالک بن کر اپنے لئے جائز وناجائز مفادات سمیٹنے لگتے ہیں اور دیگر مستحق اساتذہ محروم رہ کر دل جلنے (ہارٹ برننگ) کے شکار ہو جاتے ہیں جس کا اثر ان کی معمول کی کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ طلبہ کی سیاست نے بھی جامعات کو اس لحاظ سے بہت متاثرکیا ہے کہ ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جامعات میں طلبہ سیاست پر مدتوں سے پابندی چلی آرہی ہے اور دوسری طرف اپنے سیاسی سرپرستوں کی بدولت سرگرمیاں بھی جاری ہوتی ہیں۔ پاکستانی جامعات کا ایک سلگتا مسئلہ وائس چانسلرز کا تعین ہوتا ہے۔ اس کوہ ہمالیہ کو سر کرنے کیلئے بظاہر تو سرچ کمیٹی کے نام پر بڑے بڑے نام شامل کئے جاتے ہیں لیکن اصل میں ہوتا وہی ہے جو منظور۔۔۔۔ ہوتا ہے۔ سرچ کمیٹی ٹاپ کے تین ناموں کی سفارش کرکے فارغ ہو جاتی ہے اور پھر چانسلر اور سی ایم آپس میں مشورہ کرکے ایک ”بندے” کو چنتے ہیں یوں بعض اوقات گورنر ( چانسلر) اور سی ایم کے خیالات شریفہ میں فکری’ سیاسی اور علاقائی حوالوں سے ”رحمت” والا اختلاف بھی واقع ہو ہی جاتا ہے۔ یوں وطن عزیز کی بیشتر جامعات وائس چانسلر کے بغیر پرو وائس چانسلر یا سینئرموسٹ ڈین کے رحم وکرم پر رہ کر ”طوائف الملوکی” کی شکار رہتی ہے۔ ہمارے ہاں وائس چانسلرکی تعیناتی کیلئے تقریباً لازمی کوائف میں سے نیچرل سائنسز میں کسی غیرملک سے پی ایچ ڈی بنیادی لیاقت وصلاحیت میں شمار ہوتی ہے حالانکہ دنیا بھر میں دستور وروایت یہ ہے کہ سائنسدان لیبارٹریوں اور تحقیق گاہوں میں ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایڈ منسٹریشن کا ذائقہ اور مزے چکھا کر لیبارٹریوں سے ان حضرات کو جن کی پی ایچ ڈی پر عوام کے لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہوتے ہیں ایسا برگشتہ کرلیتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ ذائقہ و نشہ چھوٹتا نہیں اور ہماری ان گنہگار آنکھوں نے توایسے حضرات کو بھی دیکھا ہے جو نماز کرسیوں پر بیٹھ کر اور گھر سے مسجد اور واپسی پر عصا ٹیکتے ہوئے چلتے ہیں لیکن وائس چانسلرکی کسی خالی آسامی کیلئے درخواست دئیے بغیر نہیں رہتے۔ آخر کم ازکم پانچ چھ لاکھ کامرغوب پیکج کس کو نہیں للچاتا۔ یوں یہ صاحبان مختلف قسم کے مافیاز کے ہاتھوں میں یرغمال بن کر جامعات کو اس ڈگر پر چلاتے ہیں جس طرح گومل وبنوں یونیورسٹی آف سائنس وٹیکنالوجی میں وارداتیں اور ”کارنامے” منظرعام پر آئی ہیں۔
جہاں تک جامعات میں تعلیم وتعلم کا تعلق ہے’ کچھ تو ہمارے کمزور پرائمری وثانوی تعلیم کی برکات اور کچھ طبقاتی نظام کے ثمرات اور ان سب پر مستزاد سمسٹر نظام تعلیم ہے جس کیلئے ہماری سرزمین کا زرخیز ثابت ہونا شاید ویاد شمار ہے۔ ہم فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہل کرم دیکھتے ہوئے ”ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے” کا مصداق ہے ہوئے ہیں۔ اللہ رحم فرمائے۔ آمین

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''