1 404

ہمارے اصل ہیرو

ہمیں اپنے ملک کے اصل ہیروز کا قطعی ادراک نہیں۔ ہمارے ہاں کرکٹ کا ایک جنون ہے اورہمارے ہاں اس کھیل سے وابستہ کھلاڑی ہی قومی ہیروز کی مسند پر پے در پے براجمان ہوتے آئے ہیں البتہ یہاں ان کوہ پیمائوں کے بارے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اپنے عزم و حوصلے اور ناقابل یقین کارناموں کی بدولت دنیا بھر کے کوہ پیماؤں میں اپنا نام بنایااور جنہیں اپنی لگن اور مشکلات سے لڑنے کی صلاحیت کی بدولت دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
سکردو کے دور افتادہ گائوں سدپارا سے تعلق رکھنے والے محمد علی سدپاراکا شمار بھی انہی شیر دل کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ پانچ فروری کو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی، کے ٹو سر کرنے کے لیے عازم سفر ہونے کے بعد سے لاپتہ ہیں اور اب ان کی ممکنہ موت کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ ان کی موت کا اعلان پاکستان فضائیہ اور ان کے اکیس سالہ بیٹے ساجد سدپارا سمیت کئی کوہ پیماوں کی انہیں ڈھونڈنے کی ناکام کوششوں کے بعد کیا گیا۔ ساجد سدپارا جنہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پرچلتے ہوئے کوہ پیمائی کی ہی راہ اپنائی ہے ،کا کہنا ہے کہ زمینی حالات کے مطابق اب ان کے والد اور دیگر دو غیر ملکی کوہ پیمائوں کے زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں بچی۔
محمد علی سدپارا کوئی عام آدمی نہیں تھے انہوں نے دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ کو سر کیا تھا اور ان میں سے کوئی بھی آٹھ ہزار میٹر سے کم اونچی نہ تھی۔ وہ سردیوں میں کے ٹو کی بلند چوٹی کو بغیر آکسیجن سر کرنے کے خواہاں تھے۔ ایک نیپالی ٹولی نے اس سے کچھ دن پہلے سردیوں میں ہی آکسیجن کے ساتھ کے ٹو سر کرنے کا مشن مکمل کیا تھا۔
محمد علی بھی انہی کوہ پیمائوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں ہم ذرہ برابربھی معلومات نہیں رکھتے۔ وہ بھی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی کوہ پیمائی کا سفر ان پہاڑوں اور چوٹیوںپر چڑھائی سے شروع کیا جو برف میں لدی اور چٹانوں پرمشتمل ہوتی تھیں اورجہاں چلنے والی ہوائیں موسم گرما میں بھی نقطہ انجماد سے کئی ڈگری زیادہ سرد ہوا کرتی ہیں۔ خبر ہے کہ جب سدپارہ اور دیگر دو غیر ملکی کوہ پیمائوں نے اپنی مہم شروع کی تو اس وقت انہیں منفی ساٹھ ڈگری سے بھی زیادہ کے سرد موسم کا سامنا تھا۔ سدپارا کو پہاڑوں کا بادشاہ کہا جاتا تھا اور وہ ان چٹانوں کے طول و عرض سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں البتہ آخر میں بھلا پہاڑوں سے زیادہ سخت جان اور طاقتور کون ہو سکتا ہے جو اپنی ہیبت کے سامنے بڑے سے بڑے کوہ پیمائو کو ٹکنے نہیں دیتے۔
سد پارا کی سادہ لوح طبیعت اور پہاڑوں کا جنون ہی تھا کہ وہ عام چپلوں اور بوسیدہ حال جرابوں میں، کوہ پیمائی کے لیے ناگزیر لوازمات کے بغیر ہی مہموں میں شریک ہو جایا کرتے تھے۔ وہ مہمات میں ان غیر ملکیوں کا بھاری بھرکم سامان بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے چڑھے جاتے تھے جو کوہ پیمائی کی غرض سے ہمارے ہاں آتے تھے۔ افسوس کے ان کے کوہ پیمائی میں مقام اور مرتبے کے باوجود انہیں اپنے ملک میں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ سد پارا کی طرح کے کئی دیگر کوہ پیما بھی ہیں جو ہماری تحسین کے لائق ہیں۔ پاکستان میںان کی تعداد کم ہے اور ان میں کئی خواتین مہم جوبھی شامل ہیں۔ شکیلہ اور ندیمہ کا شماربھی انہی خواتین کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کئی مہمات میں شرکت کر چکی ہیں۔
شکیلہ نے تو کچھ سال قبل اپنے بھائی کی موت کے باوجود مہم میں شرکت ترک نہ کی تھی۔ ان کا ایک خاص جادو، ایک خاص سحر ہوتا ہے۔ اور سدپارا ان کی پر اسراریت سے خوب واقف تھے۔ البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے ہاں کوہ پیمائوں اور کوہ پیمائی کے شعبے کووہ توجہ کیوں نہیں ملتی جو ان کا حق ہے۔ پاکستان میں ایسے حوصلہ مند اور دلیر مہم جوئوں کی بہتات ہے جو اب تک منظر عام پر نہیں آسکے۔ان مہم جووں کے بغیر غیر ملکی کوہ پیمائوں کی مہمات کسی طور کامیاب نہیں ہو سکتی تھیں کہ یہی لوگ ہیں جو ان کا سازو سامان کندھوں پر اٹھائے ان کے ساتھ کوہ نوردی کرتے ہیں۔ ان غیر ملکیوں کی جانب سے دان دیے جانے والے لباس اور چند پیسے ہی ان کی کل کمائی ہوتی ہے اور انہیں کسی بھی پاکستانی ادارے کے طرف سے کچھ میسر نہیں آتا۔ کہاجاتا ہے کہ پہاڑوں کی خوبصورتی کے گیت گانے والے ان کی ہیبت سے ناوقف ہوتے ہیں۔ یہ کس قدر غضب ناک ثابت ہو سکتے ہیں یہ وہی بتا سکتے ہیں جو ان کی تباہی کا شکار ہوئے ہیں۔ وقت ا چکا ہے کہ ہم کرکٹ سے آگے بڑھ کر کچھ دیکھیں اور اپنے اصل ہیروز کو بھی پہچانیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کوہ پیما جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مکمل دادرسی کی جائے اور ان کی امداد کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی جانب سے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ اب بھی ملک میں بیشتر لوگ محمد علی سدپارا کے کارناموں اور ان کی موت سے بے خبر ہیں حالانکہ دھرتی کے ایسے سپوت زمانے میں خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ