4 323

امریکا کسی کا خیر خواہ نہیں

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو انتخابی کامیابی پرمبارک باددینے میں کافی تاخیر کی۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کے خلاف کام کرنے والی لابی جوبائیڈن انتظامیہ کواس حدتک یقین دلانے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے کہ گزشتہ4سال کے دوران سعودی ولی عہد نے یمن پرجوبدترین بمباری کی، جس کاکوئی خاطرخواہ نتیجہ بھی نہیں نکلا اور مبینہ طور پر چین کے ساتھ مل کریورینیم کی افزودگی کا خفیہ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ ان ٹھوس وجوہات کی بنا پرامریکی ڈیموکریٹ ارکان جلد سعودی عرب کے ساتھ امریکا کا اتحاد ختم کرنے کے لیے بائیڈن سے اپیل کریں گے لیکن دوسری طرف یہ آرا بھی سامنے آرہی ہیں کہ بائیڈن کواس تجویزکی مخالفت کرنی چاہیے کیوں کہ اتحادختم کرنے سے کسی کے رویے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی بلکہ بائیڈن کو مغربی اتحادیوں اور مشرق وسطی کی ریاستوں کے ساتھ مل کر نیااتحاد قائم کرناچاہیے،جس میں سعودی عرب بھی شامل ہوتاکہ سعودی عرب کو جوہری ہتھیاروں سے دوررکھنے کی امریکی کوششوں کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی سے روکنے میں مددمل سکے۔ سعودی شاہی خاندان کے افراد سمجھتے ہیں کہ امریکاان کے ساتھ کسی بھی وقت دھوکا کر سکتا ہے۔2015 میں ایران سے جوہری معاہدے کے بعدہی سعودی عرب کی پریشا نیوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جوہری معاہدے کوسعودی عرب کے اندرونی حلقوں میں امریکا کی جانب سے ایران سے دوستی اورسعودی عرب سے غداری کرنے کے مترادف سمجھا گیا۔ ریاض کے لیے ٹرمپ صدر اوباما سے بہتر تھا کیوںکہ ٹرمپ نے مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کیا اور ایران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایالیکن ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کے امریکا پر انحصار پر طنز کرتے ہوئے 2018 میں کہا تھا بادشاہ!ہم آپ کی حفاظت کررہے ہیں، شاید آپ ہمارے بغیر دو ہفتوں کے لیے بھی حکومت قائم نہیں رکھ سکتے۔ ولی عہدسمیت بہت سی حکومتی شخصیات کولگتاہے کہ سعودی عرب چین سے تعلقات مضبوط کرلیتا ہے، تو پھر صرف واشنگٹن پرمسلسل انحصار کرنے کاکیا فائدہ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کا کھیل شروع ہوگیا تو پوراخطہ آسانی کے ساتھ جوہری کشیدگی کاشکارہوجائے گا۔ سعودی جوہری ہتھیاروں کانشانہ ایران اورایرانی جوہری ہتھیار وں کانشانہ ریاض ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی اور مصر سے متعلق بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوششوں پر مبنی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اس صورتحال سے خوف زدہ اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کوبہتربنانے میں لگا ہے، جس کی خطے میں عسکری برتری قائم رکھنے کے لیے ٹرمپ کے بعد بائیڈن نے بھی اپنے عزم کا کھل کر اظہار کیا ہے۔مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن کے بارے میں اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ نئی منتخب امریکی انتظامیہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوگی، ان کی تمام امیدوں پرپانی پھرگیاہے کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ نے قصرسفیدمیں براجمان ہوتے ہی سعودی واماراتی حکومتوں سے اپنے معاہدوں کوختم کر دیا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کے تیوراس بات سے بھی عیاں ہو گئے ہیں کہ ترکی اورشام کے خلاف کردوں کے ساتھ داعش کوبھی فعال کردیا گیا ہے۔ ان حالیہ اقدامات سے صاف واضح ہے کہ اب مسلمان ملکوں کے خلاف جنگیں شروع ہونے کاامکان بڑھ گیاہے اوربالعموم دنیامیں اور بالخصوص مسلمان ملکوں میں تباہی،مہنگائی اورلاقانونیت میں اضافے کے ساتھ ہی ڈوبی ہوئی امریکی معیشت کوبچانے کاکام لیا جائے گا۔ادھرنئے امریکی صدرجو بائیڈن کے اس اشارے پرکہ ان کی انتظامیہ دوحہ معاہدے پرنظرثانی کرنے پرراضی ہے، کو وہاں کے ادارے ایک دانشمند انہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکا شدت کے ساتھ 19سالہ طویل جنگ کوختم کرنا چاہتا تھا، اس لیے ٹرمپ کے ذریعے طے پانے والا معاہدہ عجلت میں کیا گیا، تاہم موجودہ معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں امریکاکے ساتھ افغانستان کوبھی شدید نقصان پہنچاسکتا ہے۔ تاہم امریکی اہم پالیسی سازادارے اس بات کاجائزہ لے رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کس حدتک پالیسیوں پرمعترض ہو اور اس میں کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل بھی کیے جاسکیں۔ یا پھر مزید مہلک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا؟۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا