3 368

کورونا،تعلیم اور حکومتی وشہری ذمہ داریاں

ذرائع ابلاغ کی وسعت نے سوال کے وہ در کھولے ہیںکہ خود سوال کرنے والے کو جواب اور تفصیلات سے آگاہی ہوتی ہے ایسے میں ان کا سوال حکمرانوں اور ذمہ دار عہدیداروں کیلئے تازیانہ سے کم نہیں ہوتا ایسے ایسے سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب سچ دیا جائے تو فساد برپا ہو خود اپنی سبکی وسیاست پر زد پڑے جواب نہ دیئے بغیر سوال اٹھانے والے کا پلہ بھاری ہوتا ہے ۔پشاور کے نواحی علاقہ بڈھ بیر کے اسحاق آفریدی کورونا کے بڑھتے واقعات اور حکومتی اقدامات پر برہم ہیں ان کو حکومت کی دو عملی اور انتظامیہ کی ناکامی کی سخت شکایت ہے انہیں تعلیمی اداروں کی بندش کا بھی دکھ ہے اپنے برقی سوال میں وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کورونا وائرس اتنا با شعور ہے کہ وہ یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بندہ سکول وکالج جارہا ہے اس کا تعلق تدریس کے شعبے سے ہے اسے معلوم ہے کہ دکانیں بند نہ کی جائیں تو ان کو نشانہ بناتا ہے انہیں اس بات کا سخت دکھ ہے کہ وہ صورتحال سے اس قدرمتاثر ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں کو نیٹ اور کمپیوٹر دے کر اور جنریٹر لگا کر بجلی فراہم کر کے سولر کا انتظام کر کے آن لائن نہیں پڑھا پائے اور مفت کی فیس نجی سکولوں کو دینے کی سکت نہ رکھنے کے باعث بچوں کو سرکاری سکول میں داخلہ کرایا۔ان پر گزشتہ سال مارچ سے فیسوں کے بھاری بقایاجات تھے تو ان کے بچوں کو سکول چھوڑنے کی سند بھی ظاہر ہے جاری نہیں کی گئی مجبوراً انہوں نے دیگر ذرائع اور طریقہ استعمال کیا اور سند کی رسم پوری کر کے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کرایا چونکہ ان کے بچے معیاری نجی سکول میں پڑھ چکے تھے اس لئے سرکاری سکول میں وہ اندھوں میں کانا راجہ بن گئے مگر پھر شومئی قسمت سرکاری سکول بھی بند کر دیئے گئے اور اب ان کے بچے گھر میں کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں بیزاری کے باعث تعلیم سے تعلق بھی ان کا واجبی سارہ گیا ہے ان کا سوال ہے کہ ان کے جیسے لاکھوں والدین اور ان کے بچوں کیلئے حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہے کیا منصوبہ ہے ان کے بچوں کی تعلیم ومستقبل کا کیا ہوگا؟اسحاق آفریدی نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور سوالات اٹھائے ان کو دوسری جانب کا شاید علم نہیں یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر اپنا ہی موقف پیش کرنا مناسب سمجھا ۔دوسری جانب کی حقیقت یہ ہے کہ ایک طبقہ متوسطہ یا بالا متوسط طبقہ ہے جن کو کسی نہ کسی طرح نیٹ اور آن لائن کلاسوں سے متعلق انتظامات اور سہولیات میسر ہیں مگر تعلیم کا حرج ان کے بچوں کا بھی کم نہیں اس طبقے کے بچوں کو شکایت ہے کہ ان کے اساتذہ ناتجربہ کاری وعدم دلچسپی کے باعث کلاس روم کا متبادل تعلیم دینے کے اہل ہی نہیں اگر استاد اس قابل ہے تو پھر آن لائن کلاس کے ہم جماعت سنجیدہ نہیں ہوتے کبھی بجلی چلی جاتی ہے تو کبھی نیٹ کی سپیڈ ڈائون ہونے سے سلسلہ منقطع ہوتا ہے اس طرح کی کلاسز کی عادت نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے غرض کئی باتیں ہیں جس میں خود طالب علم کمپیوٹر آن کر کے حاضری لگا کر سو بھی جاتے ہیں ایک اور طبقہ بالائی ہے جن کے بچوں کو سمارٹ فون لیب ٹاپ، کمپیوٹر ،تسلسل سے بجلی اور نیٹ کی دوہری سہولت میسر ہوتی ہے ان کے بچے بھی کیمبرج امتحانات ملتوی کرنے کیلئے احتجاج کر رہے ہوتے ہیںمیرے خیال میں سارے مسائل شکوہ شکایات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی بچہ اور ان کے والدین تعلیم وتدریس میں حقیقی سنجیدگی کے حامل ہوں تو کتاب وقلم کا تعلق متاثر ہو بھی تو زیادہ فرق نہیں پڑنا چاہئے آخر اب تک پرائیویٹ امتحان دینے والے بھی ہوتے تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب افراد کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو ٹاٹ سکولوں میں پڑھے مکتب سکولوں میں پڑھے ان کو سہولیات کا علم ہی نہ تھا اور سہولیات سے عاری مگرسخت محنت ومشقت کے عادی تھے اس لئے کامیاب وکامران ہوئے والدین کی شکایات بجا طلبہ کے مسائل درست لیکن اگر کوئی طالب علم محنت سے کام لے تو کامیابی کا میدان کھلا اور دروا ہے۔ کورونا بارے حکومتی پالیسیاں اپنی جگہ دو عملی سے بھی اتفاق ہے لیکن حکومت بھی کرے تو کیا کرے جب میں آپ ہم سب عوام ہی ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالیں اور خود ذرا بھی تعاون نہ کریں۔حکومت مکمل لاک ڈائون اس لئے نہیں کرتی کہ ہم معاشی واقتصادی طور پر اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تعلیمی اداروں کی بندش کے ساتھ ساتھ اگر بی آرٹی بھی بند کیا جائے تو سارا شہر اور سارا صوبہ منجمد ہو سکتا ہے کیا ایک بار پھر میں آپ اور ہم سب اس کے متحمل ہوسکیں گے محنت کش طبقے کا کیا ہوگا۔سوال کرنا آسان ہے جواب دینا بھی مشکل نہیں عملی طور پر اقدامات کیلئے حقائق کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی ادارے با مرمجبوری بند رکھے گئے ہیں اس میں حکومت کا کوئی مفاد نہیں حالات کا جبر ہے ہر کوئی متاثر تو ہوگا ہی ۔خیبرپختونخوا پورے ملک میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے کل ہی کی بات ہے چو نتیس اموات ایک دن میں ہوئیں ہسپتالیں بھر چکی ہیں گھر گھر لوگ بیمار پڑے ہیں صوبے میں متاثرہ افراد کی تعداد چوبیس،پچیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے نا معلوم متاثرین کی تعداد نجانے کتنی ہو۔ حکومت،انتظامیہ کو یقیناً اپنا کام ذمہ داری سے کرنا چاہئے کچھ ہم عوام بھی سوچیں اور اپنی ذمہ داری نبھائیں تو اچھا ہوگا۔
قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 9750639 0337-پر میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔جن کے موزوں ہونے اور باری آنے پر شامل کالم کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ