mushtaq shabab 43

مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں؟

حافظ حسین احمد دور کی کوڑی لانے کے لئے مشہوری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ‘انہوں نے تازہ بیان میں ایک نئی اصطلاح ایجاد فرماتے ہوئے رینٹ اے کار کی طرز پر رینٹ اے پارٹی کا نظریہ پیش کر دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے ہماری بات نہ مان کر جے یو آئی (ف) کو عملاً گزشتہ تین سال سے نواز شریف کو رینٹ پر دے دیا ہے ‘ انہوں نے قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والی حالیہ ہنگامہ آرائی ‘ گالم گلوچ اور مارکٹائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں آئی ایم ایف کی بنائی بجٹ کی بھاری بھر کم کتابیں ‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ”جمہوری مارکٹائی” میں موثر طورپر کار آمد ثابت ہوئیں ۔ جہاں تک حکومت اور اپوزیشن کے مابین ہنگامہ آرائی کا تعلق ہے اس حوالے سے تو آغا شورش کاشمیری تقریباً پون صدی پہلے ہی سیاست کو طوائف سے تشبیہ دے کر کہہ چکے ہیں کہ
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی طوائف تماش بینوں میں
تاہم یہ جوحال ہمیں قومی اسمبلی میں متواتر ” دھما چوکڑی” مچی رہی اسے”سیاسی طوائف” کے تماش بینوں میں گھرنے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی ‘ بلکہ اسے تو”بے چاری سیاسی طوائف ” کو بری طرح نوچنے ‘ کھسوٹنے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے ‘ اور اس چھینا جھپٹی میں ” طوائف” یعنی جمہوریت کے لباس کو جس طرح تار تار کیا گیا ‘ ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دی گئیں ‘ اس پر تو زبان اور دین کے بگڑنے کی پھبتی بھی نہیں کسی جا سکتی ‘ بلکہ معاملہ کو ایک قدیم استاد شاعر شعور کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے
نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں؟
بات بساط کی ہے یعنی جس کا جتنا بس چل سکتا تھا اتنا اس نے اپنی زنبیل میں سے نت نئی اقسام کی گالیاں نکال نکال کر دل کا غبار ہلکا کیا ‘ اوپر سے ایک کمال جملہ یہ بھی سننے کو ملا کہ گالی تو پنجاب کے کلچر کا حصہ ہے شکر ہے لفظ حصہ کی جگہ”حسن” نہیں کہا ورنہ یار لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو”مرے نامہ سیاہ” میں تھی
اس کا بہر حال ایک فائدہ تو ہوا کہ اگلے روز ارکان اسمبلی کی اجلاس میں شرکت موبائل فون اور جوتوں کے بغیر ہوئی ‘ جبکہ سوشل میڈیا پر جو تبصرے ہوئے ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ مائیکرو فونز بھی خطرناک ہوسکتے ہیں ۔تاہم کسی نے بوتلوں کے بارے میں سوچا ہی نہیں کہ انہیں بھی بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے ‘ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ اگلے روز”شائستگی” کا مظاہرہ بوتلوں سے کیا گیا’ اور اس سے بھی ایک آدھ رکن کے”زخمی” ہونے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں ‘ حالانکہ پانی تو پلاسٹک کی بے ضرر قسم کی بوتل میں ہوتا ہے جس کے کسی کو لگنے سے زخمی ہونے کے خطرات بہت ہی کم ہوتے ہیں ‘ہاں اگر یہ شہد ‘ جام ‘ جیلی کی بوتل ہوتی توپھر بھی خدشہ تھا کہ اس سے نشانہ بننے والے کو نقصان مل سکتا تھا ‘ بہرحال یہ سیاست ہے اور سیاست میں سچ جھوٹ سب چل سکتا ہے ‘ ویسے شکر ہے کہ جانبین کو جلد ہی ہوش آگیا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ”عزائم” ترک کرکے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی سعی میں تعاون کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ‘ وگرنہ تو یہ صورتحال اسی طرح جاری رہتی تو قیصر وجدی کے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ
ابھی تیشہ سلامت ہے ‘ ابھی تو سنگ باقی ہے
ابھی ہارا کہاں ہوں میں ‘ ابھی تو جنگ باقی ہے
اس ہنگامہ آرائی پر جو تبصرے ہو رہے ہیں ان تبصروں نے سوشل میڈیا پر طعنہ زنی کے نئے سنگ میل تعمیر کرنا شروع کر دیئے ہیں ‘ مثلاً قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے اس ہنگامہ کو سرشرم سے جھک جانے سے تعبیر کیا تو بعض ٹرولز نے انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے الزام لگائے کہ کرکٹ کے میدان میں شاہد آفریدی جس قسم کی ”گالیاں” استعمال کرتے تھے اس پر تو انہیں سرشرم سے جھکنا یاد نہیں آتا تھا بات کسی حد تک درست ہے تاہم کھیل کے میدان اور قومی اسمبلی کے فلور میں بہت فرق ہوتا ہے ‘ کھیل کے میدان میں بکی ہوئی گالی ”ذاتی” کے کھاتے میں آتی ہے جبکہ قومی اسمبلی ‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے فلورز کسی بھی قوم کے اجتماعی فکر کی نشاندہی کرتے ہیں ‘ اور حالیہ ہنگامہ آرائی ‘ گالم گلوچ ‘ چھینا جھپٹی ‘ دھمک پیل وغیرہ نے پوری دنیا کے سامنے ہمارے”قومی کردار” کو بے نقاب کردیا ہے ‘ خاص طور پر بھارتی میڈیا جس طرح اس ساری صورتحال کو اچھال رہا ہے ‘ اس پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ‘ یعنی بقول مرحوم مقبول عامر
پھروہی ہم ہیں ‘ وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کے نہر تو پرویز کے کام آئی ہے

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا
مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار

(963)