2 529

افغانستان میں امن کب آئے گا

پڑوسی مُلک افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش ِ نظر ہر تجزیہ کار اور حکومتی نمائندے مختلف خدشات نمایاں کرنے کے بعد اَمن کی باتیں کر رہے ہیں ۔یقیناً اس خطہ میں چالیس سال سے جاری خونریزی کے بعد ہم سب اَمن ہی چاہتے ہیں۔ گذشتہ سال فروری ٢٠٢٠ میں امریکی افواج کے انخلاء کے لیے جب قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تو اس خونریزی کے خاتمے کی اُمید پیدا ہو گئی تھی۔ نئے امریکی صدر آئے تو معاہدہ میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ جس پر طالبان نے بارہا اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ عالمی طاقتیں امن کے قیام میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہیں۔ اِن بیانات اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے کسی مُلک پہ فوج کشی اور پھر انخلا ء کو اپنا ایک کھیل بنا لیا ہے۔ اب امریکہ اپنے بھاری مالی نقصان اور فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اس لا حاصل جنگ سے نکلنے کا آغاز کر چکا ہے مگر اس کے باوجودامریکی وزیر دفاع اور ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ہماری افواج کے انخلا کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم آئندہ یہاں مداخلت کا اختیار کھو چکے ہیں۔ امریکہ کے یہ وزیر دفاع آسٹین مسلم ممالک میں فوج کشی کا خوب تجربہ رکھتے ہیں اور موصوف امریکی صدر بُش کے دَور میں بھی عراق اور افغانستان میں فوجی مداخلت کے حوالہ سے مشیرِ خاص رہ چکے ہیں۔ طالبان کا استدلال یہ ہے کہ اُنہوں نے ایک آزاد و خود مختار جمہوری اسلامی امارات افغانستان کے نمائندوں اور ایک مساوی حیثیت سے معاہدہ پہ دستخط کیے تھے۔ اس لیے کسی کی بالادستی اور تبدیلی انہیں قبول نہیں۔ وہ اپنی جنگ کو غاصب بیرونی افواج اور کرائے کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف جہاد قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہی عناصر نے افغانستان کی زمین پر فساد اور ان کے عوام کو اسیر بنا رکھا ہے۔ اسی فوج کشی کو وہ اپنے مُلک میں امن اور ترقی کے لیے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ دُنیا بھر کے ماہرین افغانستان میں جاری ان شورشوں ،سازشوںاور جنگوںکے بارے دہائیوں سے ایک تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ بلکہ امریکہ نے تو مغربی دانشوروں اور تاریخ دانوں کی وساطت سے اپنی یونیورسٹیوں میں مشرقِ وسطیٰ کے باقاعدہ مطالعہ کے لیے مراکز قائم کیے ہیں۔ یقینا افغانستان کی سیاسی، جغرافیائی، ثقافتی ،سماجی اور مذہبی رحجانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی بنائی گئی تھی کہ امریکہ نے اپنے مفادات کی غرض سے اس خطہ کا انتخاب کیا۔ اسی طرح روس نے بھی اپنے مفاد کی خاطر افغانیوں کی سر زمین پہ تسلط جمائے رکھا مگر کامیابی کسی فریق کوحاصل نہ ہوئی۔سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گورباچوف نے گذشتہ ماہ کہا کہ جب مَیں نے کمیونزم کو زوال پذیر ہوتے دیکھا تو روسی فوج کو افغانستان سے نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے برطانیہ کی فوجوں کو بھی افغانستان سے بھاگنا پڑا تھا اور اب وہ اپنی نوے سال کی عمر میں امریکہ اور نیٹو کو بھی جاتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ ان عالمی قوتوں کی چڑھائی اور پسپائی میں چھپے عزائم اپنی جگہ مگر افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ جو بھی اس مُلک کو تاراج کرنے آیا ،بس اپنا نقصان کیا اور چلا گیا مگر یہاں خانہ جنگی ختم نہ ہو سکی۔ اس خانہ جنگی میں ایک نسل پیدا ہوئی اور جوان ہو گئی مگر اُس نے اپنے گھر اور باہر کبھی امن اور سکون نہیں پایا۔ اس خانہ جنگی نے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ امریکی پالیسیوں کوقبول کرنے کی پاداش میں ہم نے بڑے بھیانک نتائج بھگتے۔ امریکہ کو ہوائی اڈوں تک رسائی دی، نیٹو سپلائی کے نام پر ہماری زمین استعمال ہوئی اور یہاں تک کہ اپنی اور اپنے محافظوں کے جانوں کی قربانی دی۔ اب موجودہ صورتحال میں ہمیں ہر وقت چوکنا اور ہر معاملہ میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ پاکستان کسی بھی اعتبار سے افغانستان کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کر سکتالیکن افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ اور امن کی بحالی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ جب کوئی قوم اپنے مفادات اور قومی معاملات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اہمیت دینا چھوڑ دے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے جو افغانستان میں ہو رہا ہے۔ جب تک افغانیوں میں جمہوری سوچ پیدا نہیں ہوتی، اقتدار کی منتقلی کے لیے کوئی پر امن اور عوامی مفادکی راہ اختیار نہیں کی جاتی ،یہ خانہ جنگی ختم نہیں ہو سکتی۔ افغانستان میں آج بھی بندوق کو اہمیت حاصل ہے اور ووٹ کی کوئی عزت نہیں۔ نئی افغانی نسل تو جمہوریت کا مطلب ہی نہیں سمجھتی۔ جدید علمی ترقی،جدید سیاسی تصورات اور انسانی حقوق کو اپنائے بغیر امن کے حوالے سے مکالمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس قبائلی معاشرے کی روایتی سیاست بھی اقتدار کی سیاست ہے ۔ سماجی تبدیلی کے لیے نئے رحجانات اور نئی تعبیرات کی پذیرائی از حد ضروری ہے کہ امن کی راہ دکھائی دینے لگے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا