3 453

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

اس کم بخت سوشل میڈیا نے غضب ڈھانا شروع کر دیا ہے ‘ جسے دیکھو الٹے سیدھے دو چارمصرعے موزوں کرکے (اگر نہیں موزوں سمجھا بھی جائے) خود کو بقول شاعر کہ خون لگا کے شہیدوں میں نام کر جائیں کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے شاعروں کی صف میں کھڑا کرکے اپنی اس بے تکی شاعری پرداد کی توقع بھی لگا لیتا ہے ‘ اور وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں مستند ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بجائے لوگ تعویذ گنڈوں سے کام چلا لیتے ہیں ‘ تاہم غصہ اس بات پر نہیں آیا کہ صعیف الاعتقاد لوگ ان”عاملوں” کے پاس کیوں جاتے ہیں بلکہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ ان تعویذ گنڈوں سے وہ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ‘ تو یہ متشاعر قسم کے خود ساختہ شاعر اپنی تک بندی کے حوالے سے جو توقعات وابستہ کئے ہوتے ہیں ‘ بد قسمتی سے ان کے فیس بک فالوورز ان بے مقصد ‘ بے بحر اور بے وزن اشعار پر واہ واہ کے ڈنونگرے برسا کر ان بزعم خود بنے شاعروں کی ”حوصلہ افزائی” بھی کرتے ہیں اور انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کرتے رہتے ہیں کہ واہ جناب کیا کمال شاعری کی ہے آپ نے ‘ گویا میر’ غالب ‘ درد اور دیگر اساتذہ تو آپ کے آگے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ‘ بلکہ وہ آپ کے مقابلے میں کیا بیچتے ہیں ‘ حالانکہ ان کی اس تک بندی کے حوالے سے ہمارے ایک مرحوم دوست نے بہت پہلے کیا خوب کہا تھا کہ
اس کا فن سے بھی کچھ تعلق ہے
صرف الفاظ کا ہی میل نہیں
اور کچھ شغل کیجئے ‘ صاحب
شاعری چھوکروں کا کھیل نہیں
افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو خارج کرنے کا جو بیانیہ جاری کیا تھا اس کے پیچھے غالباً یہی ہے تکے ‘ بے بحرے اور بے وزنے شاعر ہی ہوں گے ‘ اور جس طرح ماہرین موسیقی کے نزدیک بے سرے تو معاف کئے جا سکتے ہیں تاہم بے تالے(طبلے کے مختلف اوزان اور ماتروں پر پورے نہ اترنے والے) کسی بھی صورت معافی کے قابل نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ یار لوگ بہت زور مارنے کے باوجود بھی تک بند تو کہلا سکتے ہیں ‘ شاعر نہیں کیونکہ شاعری سے ان کا دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ‘ اگرچہ ان پر استاد ذوق اور غالب والا کلیہ بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا ‘ جو محض معاصرانہ چشمک ہی کا نتیجہ تھا جب استاد ذوق نے طنزاً کہا تھا ‘ نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ‘ اور مرزا غالب نے خود بھی میر تقی میر کے مقام کو بقول ناسخ یہ کہہ کر تسلیم کرتا تھا کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں ‘ تاہم غالب تو پھر بھی غالب تھا اور یہ کہہ کر اپنی اہمیت دلائی کہ
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
ساتھ ہی ”غالب کی آبرو کیا ہے” کہہ کر استاد شاہ کو ایسا دھوبی پٹڑی مارا کہ بے چارہ تلملا اٹھا مگر کچھ بن نہیں پڑ رہی تھی اس سے اور غالب نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ میں ہی”غالب” ہوں ۔ اسی لئے تو فرمایا
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
کیونکہ غالب خستہ کے بغیر”بہت سے کام” بند ہوتے ہیں ‘ اوپر کی سطور میں شاعری اور موسیقی کے حوالے سے بات کی گئی ہے چونکہ دونوں طبقوں کا بعض حوالوں سے تعلق بھی بنتا ہے یعنی ایک تو دونوں (کم از ماضی میں زیادہ تر) شیروانی پہنتے تھے (اب بھی اکثر شعراء یہ شوق کرتے ہیں البتہ قوال زیادہ تر شیروانی زیب تن رکھتے ہیں ‘ جبکہ اس حوالے سے مرزا محمود سرحدی مرحوم نے کہا تھا
شیروانی تو پہن لوں کہ ہوں شاعر’ لیکن
اس سے ڈرتا ہوں کہ قوال سمجھ لے نہ کوئی
دوسری قدر مشترک اگالدان ہے جوپان کھانے کے دوران ”پچکاری” یعنی پان کی پیک اگالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مسلسل مظاہرہ ہم اپنی ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران موسیقی کے پروگراموں اور مشاعروں میں دونوں طبقوں کے افراد کوپان سے شغل فرماتے ہوئے اگالدان سے بھر پور استفادہ کرتے دیکھتے رہے ہیں ‘ اب سوشل میڈیا پر شاعری کے ساتھ ”بلات کار” کے مظاہرے دیکھتے ہیں تو ایک وی لاگر رضی داداکے الفاظ میں ان بزعم خود بنے شاعروں کو ”قوم الجاہلیہ للعقل المحدود” قراردیتے ہوئے ‘ عطاء الحق قاسمی کے بقول اس سوشل میڈیا کو ایسے متشاعروں کے لئے اگالدان کی طرز پر”شاعردان” قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے ‘ کیونکہ قاسمی صاحب کی یہ بات ہمیں بہت اچھی لگی کہ یہ متشاعر ‘ جن کے شر سے لوگ پناہ مانگتے ہیں اور یہ وہی طبقہ ہے جو جہاں بیٹھا ہے شعر اگلنا شروع کر دیتا ہے ‘ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس”شعردان” کی وجہ سے ان متشاعروں کی تعداد جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کے بعد ہم اس طبقے میں کچھ لوگ پہلے ہی سے خود کفالت کی منزل کو چھوتے ہوئے اب عالمی سطح پر نئے ریکارڈ قائم کرنے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے پشاو رکے ایک شاعر یاد آرہے ہیں جنہوں نے کم و بیش نو مجموعہ ہائے کلام شائع کروائے تھے ‘ اس میں زیادہ قصور ان کا نہیں تھا بلکہ ہمارے ایک ٹیچر کا تھا جوسکول کے بعد کالج میں پروفیسر ہوئے اور پھر سول سروس کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں شائع کرنے کا ادارہ قائم کرکے ایسے ہی”شوقین” حضرات کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہو گئے جن کے پاس کتابیں شائع کرنے کے لئے ضروری سرمایہ ہوتا ‘ یوں شاعری کی نو کتابیں شاع کرنے میں کامیاب ہوئے ‘تو ہمارے ریڈیو کے ایک ساتھی موسیٰ رضا آفندی نے انہیں پروگرام جواں سال میں انٹرویو کے لئے بلایا ‘ گفتگو کے دوران شاعر موصوف نے بتایا کہ انہوں نے اب تک نوسوشعر تخلیق کئے ہیں(گویا نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی) تو کیا لوگوں کو میرے نو شعر بھی یاد نہیں رہیں گے؟ سوال تو ان کا بہت اچھا تھا مگر کیا کیا جائے کہ انہیں گزرے ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں مگر ان کا کوئی ایک شعر بھی شاید کسی کو یاد نہیں۔اس لئے یہ جو سوشل میڈیا پر بے وزن اشعار کی پچکاری مار کرلوگ بزعم خود اپنے آپ کو شاعر سمجھ رہے ہیں ‘ ان کا حشر بھی سب جانتے ہیں۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے