4 433

سوشل میڈیا پر احتیا ط برتنے کی ضرورت

گزشتہ عید پرچند نام نہاد روشن فکروں کی جانب سے قربانی کے حوالے سے جو گمراہ کن پراپیگنڈا میڈیا کی زینت بن رہا تھا اس میں ہمارے ملک کے چند ایسے ٹی وی اینکرز نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو دن رات ٹی وی پر بیٹھ کر عوام کواخلاقیات کا درس دیتے تھکتے نہیں ۔اسی روشن خیال طبقے کی جانب سے عید پر قربانی نہ کرنے کا جو جواز پیش کیا جارہا تھا اس کا صریح مطلب یہ تھا کہ ہزاروں سال سے چلی آرہی سنت ابراہیمی کو موقوف کرکے اس کی جگہ رفاہ عامہ کے کچھ ایسے کام کئے جائیں جس سے معاشرے کے غریب طبقے کا بھلا ہو۔یہ گمراہ کن پراپیگنڈہ بھلے ہی معاشرے کے کچھ افراد کیلئے کوئی عقلی دلیل فراہم کرنے کا موجب بنا ہو لیکن بحیثیت مجموعی معاشرے کی مجموعی طبیعت پر بہت گراں گزرا ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر مسلسل ہوتا رہا ہے ۔ عید قربان پر گائے اور بکریاںذبح کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسی روز زیادہ سے زیادہ گوشت کھا یا جائے بلکہ یہ دن ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے جس دن اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حضور ذبح کرنے کیلئے پیش کیا تھا۔یہ قربانی اللہ اور اسکے بندوں کے درمیان تعلق کا بہترین مظہر ہے۔اسی بات کو لے کر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی طرف سے اسکے حلاف اور حق میں اپنے اپنے دلائل داغنے شروع کر دیئے۔سوشل میڈیا کے جہاں ڈھیر سارے فوائد ہیں وہاں ان کے نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہر ایک شخص تجزیہ کا ر بنا بیٹھا ہے اور کسی بھی موضوع کی اپنے اپنے انداز میں تشریح وتوضیح کرکے اس کو دوسروں پرتھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔موضوع خواہ سیاسی ہو یا معاشی، معاشرتی اسلوب کے متعلق ہو یا مذہبی امور کے متعلق، اپنے آپ کو ہرفن مولا سمجھ کر بلا جھجک اپنے دلائل کے ساتھ اپنی آرا کو پیش کرتا ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ بعض اوقات انکے بے سروپا تجزیئے اور بے ڈھنگے الفاظ کا بے محل استعمال کس حد تک معاشرے کی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ۔ یہ حال ہمارے ٹی وی اینکرز کا بھی ہے جو اپنے شو میں مہمانوں کو بلاتے تو ضرور ہیں لیکن پھر انکی رائے کو اپنی رائے پر کم ہی اہمیت دیتے ہیں حالانکہ ایک طرف تو بلائے گئے مہمان متعلقہ موضوع پر مطلوبہ دسترس بھی رکھتے ہیں اور دوسری طرف انکی مہمان نوازی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ان کی رائے کو آزادانہ طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے لیکن یہاں پر انکرز خواتین و حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے شرکا ئے پروگرام کو باہم لڑا کر اپنا ریٹنگ بہتر کیا جائے ۔ سوشل میڈیا چونکہ عام آدمی کا پلیٹ فارم ہے اسی لئے اسی فورم پر بات کرتے ہوئے انتہائی اختیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے خاص طور پر اگر بات مذہبی امور کے متعلق ہو۔ حضور ۖ کی حدیث ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کئے آگے بیاں کرے۔ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو وٹس ایپ گروپس میں، فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا فورمز پر حدیث اور صحابہ کرام کے اقوال بھیجتے رہتے ہیں بغیر یہ سوچے کہ اس قول اور حدیث کی صحت کے بارے میں مستند علماء کرام کی رائے کیا ہے، مذکورہ حدیث کا راوی کون ہے اور وہ کتنا مستند ہے۔ دراصل یہیں سے فتنے اٹھتے ہیں اور یہیں سے معاشرے میں مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کے ناسور کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔اور اسی آڑ میں ہی اسلام دشمن عناصر کو معاشرے کے کم تعلیم یافتہ طبقے کو گمراہ کرنے کا آسان ذریعہ میسر آتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حدیث، صحابہ کرام اور اولیا اللہ کے اقوال اور حتیٰ کہ قرآنی آیات کی تلاوت کے پس منظر میں موسیقی کی ڈبنگ ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اب معاشرے میں عمومی طور پر انہی رویوں کو شرف قبولیت حاصل ہورہی ہے۔کیا بحیثیت مسلمان ہمارے ضمیر اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ ہم کلام وحی کو عوام الناس تک پہنچانے کیلئے قرآن کی اپنی تاثیر اور زور بیان کی بجائے مغربی موسیقی کا سہارا لیں؟یہی رنگ دوسری طرف ہماری قوالی اور نعتوں میں بھی نمایاں نظر آرہی ہے۔ نعت اور قوالی کو موسیقی کی رنگ میں رنگا کر سننے والوں کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ وہ الفاظ کی معنویت اور اسکی تاثیرکی بجائے موسیقی کی دھنوں پر سر لہراتا نظرآتا ہے۔ہماری مذہبی غیرت اور حمیت کا تقاضا ہے کہ ہم انہی رویوں کو معاشرے کی جڑوں تک نہ پہنچنے دیں اور ایسی ساری محرکات کی بیخ کنی کریں جو کسی بھی طورپر ہمارے دین کو نقصان پہنچانے کا موجب بن رہے ہوں۔ اور اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کا ایک چھوٹا سا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم ہم ایسی پوسٹس کو نہ خود سنیں نہ دوسروں تک فاروردڈ کا بٹن دبا کر آگے پیش کریں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا