عین عشق

یا ر لوگ ہک دھک رہ گئے جب یہ خبر سنی کہ آزاد کشمیر کے لیے سردار عبدالقیوم کو نا مزد کیا گیا ہے خیر سے اب تو وہ منتخب بھی ہو چکے اور حلف بھی اٹھاکر موٹر سائیکل سواری کا لطف بھی اٹھا چکے ہیں ، پی ٹی آئی کی یہ خوبی ہے کہ اس کے اعمال حیر ان کن ہی ہوتے ہیں دھرنا تحریک سے اقتدار کی منڈلی تک اور اقتدار سے گلگت و بلتستان اورپھر کشمیر انتخابات تک سب سامنے ہے بہرحال جغادری تبصرہ نگار یہ کنڈلی نکا ل رہے تھے کہ کشمیر کی وزارت میں ایک ارب روپیہ کا تعویز کا م کر جائے گا ، مگر سردار عبدالقیوم خان کی مرنجان مرنج ومرتاض صورت میں تما م اندیشے دھر ے رہ گئے ، سردار عبدالقیوم گو کشمیر کی سیا ست میں معروف نا م توتھا مگر اتنا ممتاز نہ تھا کہ اس عہد ہ جلیلہ کے لیے ان کے نام کی طرف رجو ع ہوپاتا ، وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر میں باغ کے مقام پر تقریر کر تے ہوئے چند نام پکا رے تھے ان میں آخری نام عبدالقیوم نیا زی کا تھا اورحیر ان ہو کر کہا کہ یہا ں نیا زی کہا ں سے آگیا پھر مسکر ا کر کہا کہ نیا زی سب جگہ چھا گئے ہیں ، تبھی یہ گمان نہ تھا کہ قسمت کی دیوی ان پر مہر بان ہے ۔ سردار عبدالقیوم نیا زی گوکہ دیر ینہ سیاست دان ہیں ان کا خاندان برسوں سے مسلم کا نفرنس سے وابستہ چلا آرہا ہے انہوں نے خود بھی خاندانی روایت کے مطا بق سیا ست کی پیڑی پر پاؤں اسی جماعت سے رکھا ان کو حکومتی امور چلا نے کا بھی ملکہ حاصل ہے بہت انکساری بھری ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی کسی کے کام آنے سے انکا ری نہیںہوتے وزارت کے دوران ان کے پا س جو فائل بھی اس ہدایت کے ساتھ آتی تھی کہ اس پر دستخط کر دیں وہ بلا جھجک رشحات دستخط سے فائل کو نو از دیا کرتے ، سردار عبدالقیوم نیازی کا نام سامنے آتے ہی یہ گھن چکر پڑ گیا کہ کشمیر یو ں میں تو نیا زی قوم وقبیلہ ہے نہیں یہ نیازی صاحب کہاں سے وارد ہو گئے ، قصہ اجمال یو ں ہے کہ سردار عبدالقیوم خان کسی زما نے میں سعودی عرب میں کا روبار کرتے تھے ، آزاد کشمیر کے ایک سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان کے صاحبزادے جو خیر سے اس مرتبہ بھی آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے ہیںسردار عتیق بھی سعودی عرب میںمقیم تھے اور دونوں ایک ہی کمرے میں قیا م پذیر تھے چنا نچہ یہ دشواری ہو تی تھی کہ جب سردار عبدالقیوم کے حوالے سے کوئی ذکر ہو تا تھا تو یہ مشکل پڑ جاتی کون سے سردا ر عبدالقیوم کاذکر ہے آیا جو سردار عتیق کے رفیق اوطاق ہیں یا پھر جو والد بزرگوار ہیں ، اس وقت مولانا عبدالستار نیا زی کی سیاست بھی عروج پر تھی اور ان کا ڈیل ڈول بھی بھاری بھر کم ، آواز بھی کڑاکے دار تھی چوڑا چکلا سینہ گھنی داڑھی کے ساتھ مونچھیں بھی اپنی کشش الگ سے رکھتی تھیں چنا نچہ سردار عتیق کے کہنے پر سردار عبدالقیوم خان نے اپنی شناخت نما یا ں رکھنے کی غرض سے نیازی کا لاحقہ لگا یا کیو ںوہ جسامت کی قوی اور مضبوطی کی بنیا دپر نیازی قبیلے سے میل کھاتے تھے ، اس طرح سردار عبدالقیوم خان جوجدی پشتی مغل قوم کے سپوت تھے نیا زی بن گئے ، مگر کسی کا اگر یہ گما ن ہے کہ نیازی کی کوالفیکشن کی بناء پر ا ن کی قسمت میں یہ عہد ہ جلیلہ آیا ہے تو اس کو بد گمانی کے علا وہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ہے ان کا انتخاب روحانی عمل کے اثر کے تحت عمل پذیر ہو ا ہے ، پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کی سیا سی کا میا بی کا جو ر اردو کا حرف تہجی ”ع” قرار پایا ہے اسی طرح علم الاعداد میں18اور 13 ہند سہ بخت آور قرار پایا ہے چنا نچہ کوئی ذمہ داری سونپتے ہوئے ان امور کا خیال رکھا جاتا ہے ، عمر ان خان کے نا م کا شروع بھی ”ع ” سے ہو تا ہے ، عارف علوی تو ماشاء اللہ ڈبل عین کے مالک ہیں ، عثمان بزدار کی قسمت کا ستارہ بھی اسی عین کی بدولت چمک رہا ہے چنانچہ سردار عبدالقیوم خان کی اہلیت یہ نہیں ہے کہ وہ مغل ہو نے کے باوجو د نیا زی ہوگئے ہیں اور قسمت کا ستارہ جگمگا گیا ان کی بخت آوری ان کے نا م کے ساتھ”ع” کا کرشمہ ہے ، جہا ں تک دھڑے بندی کا تعلق ہے وہ ہنوز جو ں کی تو ں برقرا رہے اگرجائزہ لیاجائے تو سیاست کی بساط پر بیرسٹر سلطان محمود کو جو مہارت حاصل ہے وہ مسلمہ ہے ان کی شطرنجی چالیں سب ہی جانتے ہیں جہا ں تک سردار تنویر الیاس کا تعلق ہے تو ان کے گروپ کو کامیا بی حاصل ہوئی کیو ں کہ ان کو اگرچہ سینئر وزیر کی حیثیت سے ان کا ایک درجہ وزیر اعظم کے عہد ے سے کم ہے مگر چالیں ان ہی کی چل گئیں ، تاہم ابھی آزاد کشمیر کے صدر کا عہدہ موجو د ہے ممکن ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود کو صدارت کے عہد ے کے لیے راضی کر لیا جائے ، اس طرح سیا ست کا پلڑا برابر کردیا جائے ۔ لیکن پاکستانی سیاست کے اپنے ہی رنگ ہیں 2013 سے اب تک سیاست کے ایسے رنگ دیکھنے میں آرہے ہیں جو کبھی سوچ میں بھی نہیں آئے تھے البتہ معروف صافی دانشور قلقلا خان کا کہنا ہے کہ سردار عبدالقیوم خان نیا زی کے انتخاب سے یہ عقدہ تو کھلا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثما ن بزدار سے کیا علا قہ اور یہ ڈاک خانہ کیو ں کر ملا ، اور عمر ان خان بار بار یہ تسبیح کیو ں جپتے ہیں کہ عثمان بزدار اگر وزیر اعلیٰ کے عہد ے سے ہٹ گئے تو وہ بھی الگ ہوجائیں گے ایسی صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ حواریا ں عمر ان خان اب بس کر دیں اور عثمان بزدار کو کام کر نے دیں یہ ہی ان کے لیڈر کی خوشنو دی بھی ہے ۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے