افغانستان کے پیچیدہ حالات

مبینہ خود کش حملہ آوروں کے مکان پر امریکی ڈرون حملہ کابل ایئر پورٹ پر راکٹ داغنے کی ایک اور کوشش و کابل ایئرپورٹ پر خود کش حملہ و دھماکہ کے واقعات سے اس امر کا واضح ا ظہار ہوتا ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد دارالحکومت اور خاص طور پر حساس ترین ایئرپورٹ کا علاقہ کا تحفظ طالبان کے لئے بہت مشکل اور بڑا امتحان ہو گا اس وقت تک سوائے پنج شیر کے باقی ملک میں حالات کیسے ہیں اس پر کسی کی توجہ ہی نہیں گئی پنج شیرکے محاذ پر بھی صورتحال جوں کی توں ہے البتہ کابل مسلسل غیر محفوظ شہر بنتا جارہا ہے اور اس میں اضافے کا خدشہ و امکانات ہیں۔اس وقت جبکہ امریکی انخلاء مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد افغانستان مکمل طور پرطالبان کی دسترس میں ہے حالیہ دنوں میں پیش آنے والے حالات میں امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلقات اور تعاون کی جو نئی صورت سامنے آئی ہے وہ حیران کن ہے اس لئے کہ ماضی کے حریف اور عدو اب حلیف اور ایک دوسرے کے دست راست نظر آتے ہیں ایک حیران کن بیاں یہ سامنے آیا ہے جس میں اعلیٰ امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اب افغانستان میں امریکا اور طالبان مشترکہ مقصد رکھتے ہیں۔جنرل فرینک میک کینزی نے کہا کہ انہوں نے ہمارے کچھ سیکورٹی خدشات کو ختم کر دیا ہے۔جنرل میک کینزی سینٹ کام کے سربراہ کی حیثیت سے اب افغانستان کے ذمہ دار ہیں اور زیادہ واضح موقف رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکی افواج اور طالبان کے مابین معاہدہ جس کے تحت ہم طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں تاکہ ہماری حفاظت کریں۔یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی افواج دودہائیوں تک افغانستان میں رہنے کے بعد اب کابل سے نکل چکی ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ کابل میں ڈرون حملے کی اجازت کیسے دی گئی اور اس کے آگے چل کر کیا نتائج سامنے آئیں گے طالبان اور امریکہ میں اس حد تک مفاہمت کہ امریکا کو ڈرون حملے کی بدستور اجازت سمجھ سے بالاتر امرہے امن و امان کی صورتحال سے قطع نظر کابل پرقبضہ مستحکم کرنے اور افغانستان کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے طالبان کے پاس بین الافغان مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر جتنا جلد عملدآرمد شروع ہو جائے بہتر ہو گا۔نگران حکومت کے قیام اور کابینہ کی تشکیل کے لئے مشاورت کے عمل کا شروع ہوجانا نہایت امید افزا بات ہے توقع کی جانی چاہئے کہ نگران حکومت میں تمام قبائلی رہنمائوں اور طالبان کمانڈروں کو شامل کیا جائے گا اور اس میںتمام فریقوں کو نمائندگی دی جائے گی۔حکومت سازی کی کوششوں کو جلد سے جلد کامیا ب بنانے کے لئے عالمی برادری کی جانب سے بھی تعاون کا مظاہرہ ہونا چاہئے تاکہ چار عشروں سے جنگ کی تباہ کاریوں سے لہو لہان افغانستان کسی نئی جنگ سے دو چار ہونے کی بجائے استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
احسن قانون سازی
جنسی زیادتی کا شکار افراد کی شناخت کو خفیہ رکھنے ان کے تحفظ گواہوں کے تحفظ سمیت اس حوالے سے مجوزہ ضابطہ اخلاق کے حوالے سے قانون سازی حالات کا تقاضا ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ زیادتی کے شکار افراد اور ان کے اہل خانہ کی شناخت ظاہر ہونے پر جس طرح معاشرہ ان کا جینا حرام کرتا تھا اس کا تصور ہی رونگٹھے کھڑے کردینے کا باعث ہے ان افراد سے ہمدردی اور ملزموں کی گرفتاری کے لئے دبائو کے نام پرجو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا تذکرہ ہی عبث نہیں بلکہ اس طرح کی سرگرمیوں معاشرتی یہاں تک کہ قانون اور معلومات کے افشاء کا فائدہ ظالم طبقے ہی کو ہوتا آیا ہے گواہوں کے عدم تحفظ ان کو درپیش خطرات اور طریقہ کار کے باعث کم ہی کیس ثابت ہوتے جس کے باعث ملزمان بچ نکلتے یا پھر ان کو سزا اس درجے کی نہ ملتی جس درجے کے جرم کے وہ مرتکب ہوتے ملکی تاریخ میں سوائے موٹروے پربچوں کے سامنے خاتون سے زیادتی کے واقعے کے کوئی اور مثال پیش نہیں کی جا سکتی جس میں مکمل رازداری برتی گئی ہو اور ملزمان کو قرار واقعی سزا بھی ملی ہو۔ موٹر وے واقعے کے حوالے سے میڈیا و سوشل میڈیا کا محتاط رویہ بھی بے وجہ نہ تھی ایسا شاید ہی رضاکارانہ طور سے اور خاتون کی ہمدردی میں کیا گیا ہو اس کے دیگر عوامل تھے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک کیس میں ایسا مناسب تھا تو پھرباقی معاملات میں ایسا کیوں نہیں ہوتا رہا اس حوالے سے قانون سازی اور سخت سزا و جرمانہ ہی متاثرہ فرد اور خاندان کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔
باعث عبرت وچشم کشا معاملہ
افغانستان کی رکن پارلیمان رنگینہ کارگرنے کہا ہے کہ وہ اب انڈیا نہیںجائیںگی کیونکہ انہیں نئی دہلی کے ایئرپورٹ سے واپس کر دیا گیا تھا۔ رنگینہ سفارتی پاسپورٹ پر انڈیا پہنچی تھیں۔ اس طرح کے پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کے تحت ویزا کے بغیر انڈیا میں داخلے کی اجازت ہے۔ افغانستان انڈیا کے سفارت کاروں کو بھی یہ سہولت دیتا رہا ہے۔افغانستان کے وہ عناصر جو بھارت کی حمایت و محبت کا دم بھرتے ہیں اور ان سے مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو پاکستان سے ویسے ہی بیر رکھتے ہیں بھارتی حکومت کے ایک اکیلی خاتون سے قانون کے مطابق سلوک سے انکار پر ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئے افغانستان میں بدلتے حالات پر بھارت کو جو تکلیف پہنچی ہے اس کا بھارتی میڈیا پر واضح اظہار ہو رہا ہے اس حوالے سے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سوائے اس کے کہ بھارت افغانستان میںکھیلنے والے جوے میں بری طرح ہارچکا ہے اور پاکستان کوعدم استحکام سے دو چار کرنے کی ان کی سازشیں خاک میں مل چکی ہیں بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آنے اور پاکستان کا افغان مہاجرین سے سلوک کو دیکھ کر بھی اگر عقل کے اندھے ہوش کے ناخن نہ لیں تو ان کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے عوام کو پاکستان کا احسان مند ہوناہونا چاہئے جنہوں نے چار عشروں سے ان کا خیال رکھا وہ بھارت چلے جاتے تو جو سلوک ان کی خاتون رکن پارلیمان کے ساتھ ہوا اس طرح کا سلوک ان کے ساتھ بھی ہوتا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا