طالبان کے سائے سے خوف

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان کو کشمیر سمیت تمام مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنے کا حق ہے ۔انہوںنے کہا ہم کسی کے خلاف جنگ کرنے کے خلاف ہیں لیکن مسلمانوں کے حق کے لئے آواز بلند کریں گے ۔سہیل شاہین کا یہ بیان دوحہ میں طالبان لیڈر شیر محمد ستانکزئی کی بھارتی سفیر کے ساتھ ملاقات کے بعد سامنے آیا ۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اس ملاقات کے ذریعے بھارت کو عدم مداخلت کی یقین دہانی کرائی ۔بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملاقات بھارتی سفارت خانے میں ہوئی ۔ طالبان نے ملاقات کے ایجنڈے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے مگر انہوںنے یہ وضاحت ضرور کی کہ ملاقات دوحہ کے بھارتی سفارت خانے میں نہیں طالبان کے سیاسی دفتر میں ہوئی ۔بھارتی میڈیا نے تو ملاقات کو ایک نیا رخ دینے کی یوں بھی کوشش کی کہ شیر محمد عباس سانتکزئی کو بھارتی کی ملٹری اکیڈمی کا تربیت یافتہ قرار دیا جانے لگا ۔آزادسیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس ملاقات میں طالبان لیڈر نے بھارتی سفیر کو افغانستان میں مداخلت اور پنج شیر میں سرگرمیوں کے ثبوت پیش کئے بھارت کو پنج شیر سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا ۔ اس ملاقات سے پہلے انس حقانی کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر ان کی حدود اور دائرہ کار میں نہیں آتا اس لئے وہ وہاں مداخلت نہیں کریں گے ۔ان تمام واقعات کے بعد سہیل شاہین کی طرف سے کشمیر سمیت تمام اقلیتوں کی حمایت میںآواز بلند کرنے کے حق کا دفاع کیا۔ابھی بھارت انس حقانی کے ذومعنی بیان اور شیر محمد سانتکزئی کی ملاقات سے زبان کا ذائقہ بدلنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ سہیل شاہین کے بیان نے ایک بار پھر مزہ کرکرہ کر دیا۔جس کے بعد بھارتی میڈیا دوبارہ طالبان کی کشمیر آمد کا شور وغل مچانے میں مگن ہوگیا۔ طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کشمیر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت طالبان کے خوف سے بھارت کانپ اور لرز رہا ہے۔طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے بھارت میں اقتدار کے ایوان اور ٹی وی سٹوڈیوز ماتم کدوں کا روپ دھار چکے ہیں ۔ان کے اینکروں کے منہ سے جھاگ نکل چکی ہے ۔ جنرل جی ڈی بخشی جیسے بڑے بڑے طُرم خان دفاعی تجزیہ نگار چیخ چیخ کر اپنے پاگل پن او رجنون کا اظہار کررہے ہیں ۔کسی کے خیال میں بھارت کے منہ پر کالک مل دی گئی ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ دھوکا کیا ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ بھارت ذلیل ہوگیا تو کسی کو امریکہ کے ہتھیاروں کا ذخیرہ اور ٹیکنالوجی پاکستانی فوج کے ہاتھ لگنے کا غم ہے ۔بھارتیوں کی یہ تلملاہٹ دیکھ کر نائن الیون کا زمانہ یاد آرہا ہے جب اپنے جڑواں مینار گرنے پر امریکی دانشور اور حکمران طبقات ہوش وخرد سے بیگانہ ہو کر چیخ چنگاڑھ رہے تھے ۔امریکہ کے ایک بڑے اخبار نیویارک ٹائمز نے نائن الیون کو ”ذلت کا دن ” لکھا تھا اور اسے پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے سے زیادہ تباہ کن اور ہتک آمیز قراردیا تھا ۔اس وقت سی این این اور فوکس نیوز کے سٹوڈیوز میں امریکہ کے” جنرل بخشی” رو رو کر ہلکان ہو رہے تھے ۔ امریکیوں کا اس وقت کا غم اور کرب قابلِ فہم تھا کیونکہ ان پر براہ راست حملہ ہوا تھا مگر بھارتیوں کو کیا ہوگیا ہے؟ مشرقی پنجاب یا تامل ناڈو کی طرح ان کا صوبہ چھن گیا ہے ؟۔افغانستان میں فرزندان ِ زمین نے بیس سال لڑ کر اپنے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے۔وہ بیرونی حملہ آور یا درانداز نہیںمگر بھارت کی ماتم گساری اور سینہ کوبی کے پیچھے گہرے راز ہیں ۔قونصل خانوں کے نام پر بھارت بیس سال تک جو گل کھلاتا رہا سب کچھ دنیا کے سامنے عیاں ہو کر آرہا ہے۔طالبان مسلسل اس بات سے انکار کر رہے ہیں مگر بھارت کا میڈیا کو تب بھی کشمیر کے لالہ زاروں اور باغوں میں طالبان کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔بھارتی اخبار ات مسلسل اس موضوع پر تجزیے پیش کر رہے ہیں ۔انہی میں انڈیا ٹوڈے میں سری نگر کے صحافی معظم محمد کی ایک اہم رپورٹ بھی شامل ہے۔معظم محمد نے طالبان کا غلبہ کشمیر پر کیوں اثر انداز نہیں ہوگا ؟کے عنوان سے پوری کہانی میں دلائل دینے کی کوشش کی ہے کہ طالبان براہ راست کشمیر کا رخ نہیں کریں گے ۔یوں بھارت کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ وہ طالبان کے خوف میں خود کو ہلکان نہ کرے۔معظم محمد نے مضمون کا آغاز دلچسپ پیرائے میں یوں کیا ہے ” پندرہ اگست کو یوم آزادی پر سری نگر میںاٹھارہویں صدی کے افغان حکمران گورنر عطا محمد درانی کے تعمیر کر دہ قلعہ ہری پربت پر کشمیر کے لفیٹینٹ گورنر منوج سنہا نے بھارت کا ترنگا لہرا یا عین اسی وقت عطا محمد درانی کے دیس او ر افغانستان میں افغانستان میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کا جھنڈا اتار کر اسلامی امارت اسلامی کا سفید وسیاہ جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کئی وجوہات کی بنا پر کشمیر میں براہ راست مداخلت سے گریز کریں گے مگر اس کے اثرات بہرطور کشمیر پر مرتب ہوں گے ۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد افغانستان کی درپردہ جنگوں سے جڑی ہوئی ہے ۔جب افغانستان میں جنگ جا ری تھی تو اسی دوران31جولائی1988کو کشمیر میں پہلا بم دھماکہ ہوا تھا ۔ اس کے بعد سے کشمیر کی مسلح جدوجہد آگے ہی بڑھتی رہی ۔نوے کی دہائی میں ایک افغان عسکری جو گل بدین حکمت یار کا باڈی گارڈ رہ چکا تھا کشمیر میں داخل ہوا اور اکبر بھائی کے نام سے مشہور ہونے والے اس افغان نے سیبوں کے شہر سوپور کو اپنا مرکز بنایا اور ڈھائی تین سال تک وہ اس شہر پر راج کرتا رہا ۔اس کی موجودگی میں بھارتی فوج شہر میں داخل ہونے خوف کھاتی تھی ۔افغان کمانڈر کی موت کے بعد ہی بھارتی فوج سوپور کے گلی کوچوں میں داخل ہوئی اور انتقام کے طور پر شہر کا مرکزی علاقہ جلادیا گیا۔اسی طرح اخبار نے میجر مست گل کی مثال دی جس نے ایک مشہور درگا ہ کو اپنا مرکز بنایا تھا اور پھر محاصرہ توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوا تھا۔یہی سوال کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے کشمیر پر بھی پڑیں گے ضرور پڑیںگے۔ان حالات میں بھارت کی چیخ وپکار آنے والے حالات کا منظر واضح کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے