افکار کی جنگ

پاکستان میں کچھ عرصہ سے خواتین کا لباس موضوع بحث بن چکا ہے، اس بحث کی وجہ خواتین کے ساتھ پے در پے ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات ہیں، ایک طبقے کا دعویٰ ہے کہ خواتین کا مختصر لباس سماج میں جنسی جرائم کا سبب ہے، اس طبقے کے زیادہ تر لوگ مذہبی خیالات کے حامل ہیں تاہم وزیر اعظم عمران خان بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں، یہ لوگ وہ اپنے مؤقف کے قوی ہونے میں قرآن و حدیث کے دلائل پیش کرتے ہیں جن میں خواتین کو پردہ کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ سختی سے اس کی تردید کرتے ہوئے ایسی مثالیں پیش کرتا ہے کہ جن میں خواتین نے پورا لباس پہنا ہوا تھا مگر اس کے باوجود وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بن گئیں۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے، یہ لوگ بین السطور دراصل یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ تمام تر پابندیاں مردوں کیلیے ہونی چاہیے، خواتین جیسا لباس پہنیں مردوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر اس فارمولے پہ عمل کر لیا جائے تو سماج میں جنسی جرائم کی شرح کم ہو جائے گی۔
اس بحث میں کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کی طرف اول تو توجہ نہیں دی جا رہی اگر کہیں توجہ دی گئی ہے تو وہاں بھی جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ میں نے اس حوالے سے جتنی تحریریں پڑھی ہیں ان میں ہر دو جانب سے جانبداری پائی ہے، بلکہ اسے دو انتہاؤں کی دوری کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت میں ہر کسی کیلئے دوسرے میں کشش رکھ دی ہے، کوئی ذی عقل اس سے انکار نہیں کر سکتا، جب ہم جنسی جرائم کی بات کرتے ہیں تو خواتین کو برابر کا ذمہ دار ٹھہرانے میں قطعی طور پر انکار کر دیتے ہیں حالانکہ درست بات یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی برائی کے ذمہ دار ہیں، اسلام کی مقدس تعلیمات میں مرد و عورت میں سے کسی ایک کو حکم دینے کی بجائے دونوں کو حکم دیا گیا ہے، کیونکہ دونوں میں بہکنے کے امکانات ہوتے ہیں، سو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خواتین کو مردوں سے تحفظ فراہم کیا جائے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ نیم برہنہ خواتین سے مردوں کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ سماج میں ایسے مردوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو خواتین کے نیم برہنہ لباس کو اپنی عفت و پاک دامنی کیلئے خطرہ تصور کرتے ہیں، ایسے مردوں کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی؟ جنسی جرائم کے حوالے سے اس وقت جس بحث کا آغاز ہو چکا ہے اس میں خواتین کے تحفظ سے زیادہ اس بات کا غلغلہ ہے کہ جس طرح کا مغربی ممالک میں ماحول ہے ویسا ہی ماحول پاکستان میں بھی ہونا چاہئے یعنی خواتین کی اجازت سے ہر وہ کام جائز ہو جائے گا جو کسی بھی مذہب اور شریعت میں جائز نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلی تھیلے سے پوری طرح باہر آ چکی ہے کہ گناہ کو گناہ کہہ کر اس سے نفرت کرنے اور دور رہنے کی بجائے اسے عورت کی اجازت سے مشروط کر دیا جائے، یہ ہے وہ سماجی ترقی جس کی تقلید کا ہمیں درس دیا جا رہا ہے۔ جو لوگ پاکستان میں مغربی ماڈل لانے کے خواب و منصوبے بنا رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے خواب کو جلد تعبیر ملنے والی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں کے ماڈرن والدین بھی اپنی بچیوںکے حق میں بہت حساس ہیں، میں متعدد ایسے والدین کو جانتا ہوں جو بظاہر آزاد خیال ہیں لیکن اپنی بچیوںکو وہ مغرب طرز کی آزادی دینے کیلئے آمادہ نہیں ہیں، کتنی فیملیاں ایسی ہیں جو ایک عرصہ سے مغربی ممالک میںقیام پذیر تھیں لیکن جونہی ان کی بچیاں جوان ہوئیں تو فوراً وطن واپس لوٹ
آئیں کہ مغربی معاشرہ بچیوںکے لئے سازگار نہیں ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوں اس ماڈل کو پاکستان جیسے اسلامی ملک میں لانے کی کوششیںکی جا رہی ہیں۔یوں دیکھا جائے تو دو طبقوں کے افکار کا ٹکراؤ ہے، جس میں ایک مغربی سماج کو آئیڈیل تصور کرتا ہے جبکہ دوسرا اسلامی سوچ کا حامل ہے، اور مغربی افکار کو مشرقی روایات کے خلاف بلکہ زہر قاتل تصور کرتا ہے۔ ایک اپنی روایات کی پاسداری اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے جبکہ دوسرا مغربی نظام کے نفاذ کیلئے کوشاں ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دو گروہوں میں افکار کی جنگ ہے، افکار کی جنگ میں کسے کامیابی حاصل ہوتی ہے یہ ایک طویل بحث ہے، تاہم یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے برعکس مغربی سماج کو کسی بھی اعتبار سے مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، مغرب کا سماجی ڈھانچہ تین بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک یہ کہ انسان کی معاشی ضروریات کی تکمیل ہی اصل کامیابی ہے، دوسرے یہ کہ زندگی گزارنے کیلئے خوشی اور لذت کے مواقع میسر ہونے چاہئے جبکہ تیسرے یہ کہ مذہب کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہونا چاہئے، مغرب کے تصور حیات کا لب لباب مادہ پرستی ہے، اس کے برعکس اسلام کا تصور حیات اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی ہے، جو کام انفرادی طور پر غلط ہے وہ سماجی اور اجتماعی طور پر بھی غلط ہے، مغرب کی تعلیمات فرد کی آزادی کی گرد گھومتی ہیں جبکہ اسلام فرد کو کسی ایسے کام کی اجازت نہیں دیتا جو سماج کیلئے خطرے کا باعث بنے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو کبھی خواتین کے لباس جیسے موضوع کا سبب بنتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کو دہشتگرد کہہ کر انہیں مغربی سماج کی برتری کے گیت سنائے جاتے ہیں، مقصد ان موضوعات کا یہ ہوتا ہے کہ مغرب کی سماجی برتری ثابت کر کے مسلمانوں سے ان کی اعلیٰ اقدار چھین لی جائیں، اس لئے میرا ماننا ہے کہ ہمارے اوپر افکار کی جنگ مسلط ہو چکی ہے، اس ثقافتی جنگ میں کامیابی اپنی روایات پر قائم رہ کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا