افغانستان کا بھلاسب کا بھلا

گزشتہ سترسال کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تقریباً سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔اگرچہ پاکستان کو اپنے قیام سے ہی سابقہ سوویت یونین، بھارت اور امریکہ کی طرف سے بیرونی دبائو کا سامنا رہاہے لیکن اگر دیکھاجائے تودوطرفہ سطح پر منفی طرزعمل کا آغاز افغانستان کی طرف سے ہوا ،جس اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی۔ بھارت بھی ہمیشہ ہر اس مہم کا حصہ رہا ہے جس سے افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر کو تقویت ملے۔ ماضی کی افغان حکومتیں پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتی رہیں اور اس کے لیے ایسے مسائل کھڑے کرتی رہیں ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی تھی۔ افغان اپنے حکمرانوں کو، جن کا برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا،الزام دینے کے بجائے پاکستان کو ڈیورنڈ لائن جیسے مسائل پر قصور وار ٹھہرایا جاتا رہا۔یہ دراصل اس ذہنیت کی عکاسی تھی جسے ظاہرشاہ کے دور سے افغانستان میں پروان چڑھایا گیا تھا۔ خاص طور پرگزشتہ بیس سال کے دوران افغان حکام ،بھارتی حکام اور میڈیا کی پشت پناہی سے پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن خود اپنے ملک میں اچھا نظم ونسق قائم کرنے میں ناکام رہے۔ یہ افغان حکمران طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کے لئے اُس وقت ایسا ساز گار ماحول بھی قائم نہ کر سکے کہ جب طالبان ہتھیارڈالنے کی دستاویزات پر دستخط کرنے کو تیار ہو گئے تھے۔ امریکیوں نے بھی نہ صرف طالبان کے مفاہمتی جذبے کو مسترد کیا تھا بلکہ ملک میں متفقہ جمہوری نظام کے قیام حوالے سے سنہری موقع بھی ضائع کردیا تھا، لیکن تاریخ خود کو کیسے دہراتی ہے اس کا اظہار اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان کابل میں داخل ہوئے اور پھر امریکہ کی طرف سے متفقہ حکومت کا مطالبہ کیا گیا۔ 15 اگست کو جو کچھ ہوا ہے، اس سے پاکستان کے حوالے سے افغان حکام کے تمام تر دعوئوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ طالبان بغیر کسی مزاحمت کے کابل میں داخل ہوئے۔ اس سے نہ صرف طالبان کے ایک زبردست قوت ہونے کے تاثر کو تقویت ملی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ انہیں جنگ کے دوران ملک کے عوام کی مکمل تائید حاصل رہی ہے۔ افغان جمہوریت کا چہرہ بننے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی نے طالبان کے دوبارہ ابھرنے کا الزام بھی پاکستان کی دے دیا حالانکہ وہ اچھا نظم و نسق قائم کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی یہ کرائے کی سوچ شاید ان کے یا ان کے اتحادیوں کے لئے فائدہ مند ہو ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ بیرونی تعاون کے بغیر پائیدار جمہوری نظام قائم نہ کرسکے۔ سیاسی فائدے کیلئے امریکی حکام نے بھی پاکستان پر طالبان کی حمایت کے الزامات لگانے شروع کئے۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو دیکھنے کے بجائے وہ اپنی توانائیاں یہ ثابت کرنے پر صرف کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے تعاون نہیں کیا جبکہ طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتے رہے اور
علاقے فتح کرتے رہے ۔ یوں امریکی بیانیے کو کوئی پذیرائی نہیںملی۔ اسی طرح گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارتی میڈیا نے افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیے کو مضبوط کرنے کیلئے دن رات ایک کئے رکھا۔ پھر جیسے ہی امریکی فوج نے وہاں سے انخلاء شروع کیا بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف یلغار مزید تیزکردی۔ میڈیا ہی نہیں بھارتی فوج کے سابق جرنیل بھی اس مہم میں شامل ہوگئے اور پاکستان کے پنجشیر کی لڑائی میں ملوث ہونے کے مضحکہ خیز ثبوت لے آئے، ایک فلم کا کلپ استعمال کرتے ہوئے پنجشیرمیں پاکستانی فوجیوں کو شہید دکھا دیا تاہم بھارت کے ہی ایک ریٹائرڈ میجر جنرل نے اس لطیفے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بھارت کی طرف سے غلط معلومات کا یہ کوئی واحد واقعہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے یورپی تحقیقاتی صحافیوں نے ایک بھارتی ڈس انفولیب کو بے نقاب کیا تھا جس کے ذریعے سو سے زائد ملکوں میں جعلی اکائونٹس استعمال کرکے پاکستان کو بدنام کیا جا رہا تھا۔ اگرچہ بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا مگر ہر بار اسے ناکامی ہوئی۔ اب افغانستان میں جب علاقائی تعاون کے ذریعے صورتحال مستحکم بنانے کی کوششیں جاری ہیں،بھارت تنہا ہے اور اس کے مبصرین بھارت کی اس تنہائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بھارت کو پاکستان کو ”ولن” کے طور پر پیش کرکے صورتحال اپنے حق میں بدلنے میں کوئی مدد نہیں ملی بلکہ افغانستان میں ہونے والی پیشرفت سے پاکستان کیلئے ایسی ساز گار فضا قائم کی ہوئی ہے کہ نئے علاقائی مفاہمتی عمل کا حصہ بن گیا ، افغانستان کے بارے میں اس کے پڑوسی ملکوں میں اتفاق رائے اس بات کا مظہر ہے۔ بلاشبہ بھارت اس اتفاق رائے کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ افغانستان میں انتشار پھیلانے کے لیے ہی کام کرتا رہا اور امریکہ کے اتحادی کے طور پر مخاصمت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ طویل مدتی تنازعے میں پھنس جائے گا اور شنگھائی تعاون تظیم میں بھی اپنی اہمیت کھو دے گا۔ بھارت کو چین اور پاکستان کے ساتھ دو محاذوں کا سامنا ہوگا اور اس صورتحال سے پورے خطے کی سکیورٹی دائو پر لگ سکتی ہے۔ افغانستان میں ہونے والی پیشرفت تمام فریقوں ( خواہ وہ داخلی ہوں یا خارجی) کیلئے ایک سبق ہے ۔ اگر خارجی عناصر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں تو افغانستان ایک دلدل ہے لیکن اگر غیرجانبداری اختیار کی گئی تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ اس لئے افغانستان کی غیرجانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور اسی میں سب کا بھلا ہے۔ (بشکریہ،دی نیوز،ترجمہ :راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ