طالبان کے لئے عام معافی، خدشات وتوقعات

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی طالبان کو عام معافی دینے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر خارجہ کے اس بیان پر سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس سوال پرگرما گرم بحثیں چھڑ گئی ہیں کہ آیا طالبان کو عام معافی دینی چاہئے یا نہیں۔ وزیر خارجہ کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پڑوسی ملک افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان کی قیادت میں کابل میں ایک نئی حکومت وجود میں آئی ہے۔اس سیاسی پیش رفت سے کئی سوالات نے سر اٹھایا ہے جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان کے اندر موجود پاکستانی طالبان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا وہ پاکستان کیلئے مستقبل میں کسی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں؟ کیا وہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر حملے جاری رکھیں گے؟ انہی سوالات کی اہمیت افغانستان میں طالبان کی کابل پر کنٹرول کے بعد افغانستان کی جیلوں سے ہزاروں افغان طالبان کے ساتھ سینکڑون پاکستانی طالبان اور انکی مقامی قیادت کی رہائی کے بعد مزید بڑھ گئی ۔ ساتھ ہی یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں یہ طالبان واپس پاکستان جاکر پاکستانی سرزمین پر اپنی عسکری کارروائیاں دوبارہ شروع نہ کردیں۔
افغانستان کے ساتھ ملحقہ قبائلی اضلاع میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں ان سوالات کا جواب اثبات میں دینے کیلئے کافی ہے۔ اسی تناطر میں طالبان سے بات کرنے یا نہ کرنے کے سوال پر میڈیا کے اندر بھی بحثیں چل پڑی ہیں۔ گو کہ انہی خواہشات کا ظہار حکومتی حلقوں کی جانب سے ماضی میں گاہے بگاہے ہوتا رہا ہے لیکن معاشرے کے کئی حلقوں کی جانب سے مزاحمت پرحکومت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا یا ہے۔لیکن افغانستان میں حالیہ سیاسی پیش رفت کے تناظر میں یہ سوال مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادی افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کی میز پر آمادہ ہو گئیں تو پاکستانی حکومت کیوں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ مذاکرات نہ کریں۔حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تقریباً دو دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مملکت خداداد کو مالی اور جانی طور پر کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی جنگ میں تقریباً 80 ہزار کے قریب قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔اسی دوران لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوکر رہ گئے۔تقریباً سات ہزار کے قریب فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی نقصانات کا تخمینہ ایک سو پچاس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ۔لیکن افغانستان کے اندر ہوئے حالیہ سیاسی پیش رفت نے ثابت کردیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے بندوق کا سہارا لے کر غلط راستے کا انتخاب کیا لیکن آخر وہ بھی اس دھرتی کے بیٹے ہیں۔ اگر وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں تو انہیں سیدھے راستے پر لے کر آنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے ۔مملکت خداداد اب مزید جنگوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ انہی جنگجوئوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کیلئے بہترین لائحہ عمل اور میکینزم کیا ہو؟ انہی جنگجوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر تحریک کا حصہ بنے ہیں لیکن اب ان کو فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا کیونکہ ان کا پنا معاشرہ ان کو دوبارہ لینے کے لئے تیا ر نہیں ہے۔ ان کو اگر حکومت کی جانب سے تحفظ کی ضمانت دی جائے تو وہ بخوشی دوبارہ ایک عام زندگی گزارنے کیلئے تیار ہیں ۔ دوسرے مرحلے میں ان لوگوں سے بات جائے جو قدرے زیادہ سنگین نوعیت کے مقدمات میں حکومت کو مطلوب ہیں۔ ان لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ آباد کرنے کیلئے ایک منظم ری ہیبیلیٹیشن پروگرام کے تحت قابل اور تجربہ کار ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے زیر سایہ تربیت دی جائے تاکہ ان کے ذہنوں سے منفی رجحانات کو ختم کرکے ملک وقوم کی ترقی کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن کیا جائے۔حکومت پہلے بھی انہی جنگجوئوں کی معاشرے میں آباد کاری کی خاطر سوات میں صباون کے نام سے کامیاب پروگرام چلاتی رہی ہے جس میں ان جنگجوئوں کی تعلیمی ضروریات کے علاوہ، ان کی فنی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں وطن کی مٹی سے محبت کے جذبات موجزن کرنے کیلئے اخلاقی درس کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔لیکن بد قسمتی سے وہ پروگرام بعد میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے بند ہوا۔اس قسم کے پروگراموں کی بندش سے یہ خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں وہ جنگجو دوبارہ بندوق نہ اٹھائیں لہٰذا اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ایسے پروگراموں کو ایک منظم انداز میں آخر تک کامیابی سے چلانے کیلئے بھرپور ہوم ورک کیا جائے تاکہ کسی بھی مرحلے پر یہ سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔ اس سلسلے میں سری لنکااورسعودی عرب کے ماڈلزسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''