سماج اور ہم

سمجھنے سمجھانے کی باتیںکسی صورت میں کیوں نہ ہوںعا م طور پرہم ان سے کم ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ انسانی اخلاقیات کے حوالے سے کتابوں کے صفحے کے صفحے بھرے پڑے ہیں لیکن اب بھی اخلاقی حوالوں سے انسان اس معراج کو نہیں پہنچا جو انبیاء کرام اور صالحین کا درجہ رہا ہے ۔ اخلاقیات بھی کسی کی میراث نہیں ۔ اکثربہت پڑھے لکھے لوگوں میں اخلاقی حوالے کم کم ہوتے ہیں اوراکثر بہت کم یابالکل ان پڑھ لوگوںمیں بھی اخلاق کے اعلیٰ نمونے مل جاتے ہیں ۔ مسلہ سارا اس سٹیٹ آف مائنڈ کا ہے کہ جس میں ہم شب وروز کرتے ہیں ۔سٹیٹ آف مائنڈ بڑی عجیب چیز ہے ۔ ایک ہی چیز کو مختلف لوگ مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔جیسے چودھویں کا چاند کسی شاعر کے لئے محبوب کا چہرہ ہوسکتاہے تو کسی ماہر فلکیات کے لئے وہی چاندعلم کی کھلی کتاب ہوسکتاہے ،مگر کسی فاقہ زدہ انسان کو چودھویں کے چاند میں تنور سے نکلی ہوئی گرم گرم روٹی کا عکس دکھائی دے سکتا ہے ۔ انسان کی اخلاقی اچھائیاں اور برائیاں بھی اسی سٹیٹ آف مائنڈ سے مرتب ہوتی ہیں ۔ انسان زندگی کو جیسا سمجھتا ہے اسی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کی شخصیت پنپتی ہے اور اسی شخصیت کاسماج میں عمل دخل، رویوں اور اعمال کی صورت میں جو کچھ سامنے آتا ہے اخلاقیات کہلاتا ہے ۔زندگی کی بھی تو بہت سی تشریحات کی جاسکتی ہیں ۔ ا نہی تشریحات پر زندگی کا اور اخلاقیات کا نظام مرتب ہوتا ہے ۔ آسٹریلیا کے رین فارسٹ میں بسنے والے قبیلے جو آج کے جدید دور کی سہولیات سے کٹ کر ماضی جیسی زندگی گزاررہے ہیں ان کا بھی اپنا ایک اخلاقی نظام موجود ہے اور اس اخلاقی نظام کاپس منظر بھی وہی ہے جو اس محدود سماج نے مرتب کیا ہے ۔ چونکہ وہ لوگ ایک ہی قبیل کے افراد ہیں۔ تشکیک کی صورتیں کم ہونے کی صورت ایک جیسی ہی زندگی گزارتے ہیں ۔ جدید دنیا میں چونکہ رنگ رنگ کی کیفیات پائی جاتی ہیں اس لئے وہاں اخلاقی دائرے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں ۔کسی بھی سماج میں اخلاقی دائرے بھی تین قسموں کے ہوسکتے۔ مذہبی اخلاقی دائرہ ،سماجی یا ثقافتی دائرہ اور ذاتی اخلاقی دائرہ۔عموماًان تینوں کا آپس میں ایک رشتہ بھی ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے لین دین بھی کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ایک اخلاقی نظام اور بھی ہے کہ فلسفیانہ اخلاقی نظام کہتے ہیں اور یہ آفاقی ہوتا ہے ۔ ہماری بحث سے اس لئے خارج ہے کہ اس پر بات ایک کالم میں نہیں کی جاسکتی بس سمجھنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس فلسفیانہ اخلاقی نظام کے تحت وہ کلئے تلاش کیے جاتے ہیں کہ جن سے سماج ایک بہتر انداز سے آگے بڑھ سکے ۔ دینی اخلاقی نظام کی بنیاد کماندمنٹس پر ہوتی ہے ۔ دین حکم دیتا ہے کہ ایسا کرواور ایسا نہ کرو ۔ دین کو ماننے والے اس پر ویسا ہی عمل کرتے ہیں۔ہر سماج کسی ثقافت و تہذیب کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور زندگی کا یہی ورتاوا اس سماج کے لئے اسی ثقافت کے لئے ایک اخلاقی نظام مرتب کرتا ہے ۔ مذہبی اور ثقافتی اخلاقی نظا م عموماًایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں ۔ ان دونوں اخلاقی نظاموں سے انحراف کرنے والے مذہبی اور ثقافتی دونوں حوالوں سے بری نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ذاتی اخلاقی نظام ہر فرد کاذاتی ہوتا ہے ۔ فرد سماجی وثقافتی اخلاقی نظام کے تناظر میں اپنے لئے ایک اخلاقی نظام مرتب کرتا ہے ۔ اخلاقیات کسی بھی سماج کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں ۔کیونکہ اسی کی بنیاد پر کوئی سماج اچھا یا براقرار دیا جاتا ہے ۔ اخلاقیات چونکہ انسان کا انسان سے تعلق اور لین دین کی صورت میں کارفرما ہوتا ہے اس لئے اعلیٰ اخلاقی رویے کسی سماج کو سکون کا گہوارہ بنا دیتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں اس معاشرے میں کجیاں اور کمیاں قائم رہتی ہیں ۔ مذہب اور ثقافت دونوں فرد کو اخلاقیات سکھاتے ہیں ۔ مذہب اپنی تعلیمات کے ذریعے اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہوئے فرد کی شخصیت اخلاقی ترقی کا باعث بنتی ہیں جبکہ سماجی رویے اپنی جگہ یہی کام اپنے انداز میں کرتے ہیں ۔ مادہ پرستی کسی بھی سماج کے لئے زہر قاتل کا سامان پیدا کرتی ہے ۔ مادہ پرستی کی دیمک سب سے پہلے انصاف کے ان حوالوں کو کھاجاتی ہے کہ جوانصاف کسی بھی معاشرے کے لئے بیلنس مہیا کرتا ہے ۔ مادہ پرست معاشرے میں مادہ یا زر اتنا طاقت ور ہوجاتا ہے کہ باقی تمام حوالے اس کے زرخرید ہوجاتے ہیں ۔ یہی مادہ پرستی انسان کو مذہب سے دور کردیتی ہے اور مذہب جو کچھ سکھا رہا ہوتا ہے اسے سیکھنے اور سکھانے کا عمل یا تو معطل ہوجاتا ہے یا سست روی کا شکارہوجاتا ہے کیونکہ زندگی کا مطمع نظر ہی مادہ پرستی میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ زندگی کے رویے جب تبدیل ہوجاتے ہیں تو لامحالہ سماجی قدروںکو بھی بدلنا پڑتا ہے اور سماجی قدریں اگرچہ لچکدار ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ آہستگی کے ساتھ بدلی جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن جب مادہ پرستی کے بل بوتے پر انہیں تیزی کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے تو یقینا اس میں بگاڑ کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ یوں یہ مادہ پرستی پورے اخلاقی نظام کو تہس نہس کردیتی ہے ۔ اخلاقیات ایسی صورت میں ہوس پرستی کا دوسرا نام بن جاتا ہے ۔ پیسہ ہی سب کچھ قرار دے دیا جاتا ہے ۔ انسان انسان کے لئے اجنبی بن جاتا ہے اور محبت ،انس ، مروت جیسے جذبے مدفون ہوجاتے ہیں ۔ خودغرضی اُس معاشرے کی زینت بن جاتی ہے اور ہرکوئی اپنی ذات تک محدود ہوکر سماج میں رہ کر بھی سماج سے دور ہوجاتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب سماج میں منافقتیں اور جھوٹ اعلیٰ صفات قرار دے دی جاتی ہیں ۔ ایسے میں کرپشن ، اقرباپروری کے رویے جنم لیتے ہیں اور حقدار سے اس کا حق چھینا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں وہ حقدار کہ جس سے حق چھینا گیا ہے وہ بھی اپنے حق کو چھیننے کے لئے کوئی بھی رستہ استعمال کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھنے لگتا ہے ۔ پیسے کی نمائش مفلسوں کے احساس کمتری کو شدتیں فراہم کرتا ہے اور احساس کمتری کی یہی شدتیں انسان کو سیدھے راستے کو چھوڑکر نئی راہوں کی تلاش میں سرگرداں کرنے میں مائل کرتی ہیں ۔ کیونکہ جب میرا تربور ۔ہمسایہ یا دشمن اپنے گھر کی دیوار کو مادہ پرستی کی بدولت میرے گھر کی دیوار سے اونچا کرنے کی کوشش کرے گا تو ظاہر ہے میں بھی اپنی دیوار کو اونچا کرنے کے لئے خود کو حق بجانب سمجھوں گا چاہے مجھے اس دیوار میں چنی جانے والی اینٹ کہیں سے چوری کیوں نہ کرنی پڑے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند