حکومت و اپوزیشن کی ذمہ داری

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گزشتہ روز کے اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے مہنگائی کو جواز بنا کر کراچی، کوئٹہ ، پشاور، لاہور میں احتجاجی جلسے کرنے کے بعد دسمبر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا عندیہ دیا ہے ۔اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط عوام کے سامنے پیش کرے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے تین برسوں میں حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ایوان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو جمہوری عمل کا حصہ اور آئین میں درج ہے۔ آئین کے مطابق حکومت و اپوزیشن دونوں مقدس ایوان کا حصہ ہیں اور ریاستی امور کو باہمی تعاون سے چلانے کی کوشش جمہوریت کا حسن کہلاتی ہے، دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں تمام ریاستی فیصلے ایوان میں ہی ہوتے ہیں، امریکہ و یورپ سمیت اکثر ممالک میں ایوان کو خاص اہمیت حاصل ہے، اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دیتی ہیں، احتجاج اور دھرنے بھی ہوتے ہیں مگر کوئی فیصلہ ایوان سے باہر نہیںہوتا۔ برطانیہ سمیت کئی ممالک میں شیڈو گورنمنٹ کا مکمل ڈھانچہ کام کر رہا ہوتا ہے، حکومت میں نہ ہونے باوجود ان کا ہوم ورک بسا اوقات حکومت سے زیادہ ہوتا ہے، ملکی معیشت ، داخلہ اور خارجہ پالیسی سے لے کر گلی محلے کے مسائل کا مکمل انتظام اور حل شیڈو گورنمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے، اپوزیشن جماعتیں ورکنگ کے ذریعے حکومت کو ایوان میں اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ عوامی مسائل کو حل کریں کیونکہ اپوزیشن کا ایوان کے اندر آئینی کردار ہے، اپوزیشن حکومت کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ منشور کی پاسداری کرے اور عوام سے جو وعدے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تھے اسے پورا کیا جائے۔ اس دوران اپوزیشن ، حکومت کو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ اگر اس نے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہ کی تو اپوزیشن ترجیحی بنیادوں پر عوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے اس دباؤ کے بعد حکومت میں مسابقی عمل شروع ہو جاتا ہے، جو حکومتی کارکردگی میں بہتری کا سبب بنتا ہے، اس کے برعکس ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم جمہوریت کے ثمرات سے پوری طرح مستفید نہیں ہو سکے ہیں، اس کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو جمہوریت کی علمبردار تو ہیں مگر سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے، سو ہر مسئلے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر اپوزیشن جماعتیں بری الذمہ ہو جاتی ہیں حالانکہ آئینی اور قانونی طور پر اگر ناکامی کی ذمہ دار حکومت ہے تو اپوزیشن بھی جمہوری عمل کا حصہ ہونے کی وجہ سے برابر کی ذمہ دار ہے۔ اپوزیشن جماعتیں گو حکومت میں نہیں ہیں لیکن ایوان کا حصہ تو ہیں ، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ پاکستان کے کروڑوں عوام نے تو تمہیں اس لیے ووٹ دیا تھا کہ ایوان میں جا کر عوام کا مقدمہ لڑیں لیکن آپ ایوان سے باہر سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے نام سے اپوزیشن جماعتوںکا اتحاد قائم ہوا تو ایک سال تک اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر جلسے جلوس کرتی رہیں، بعد ازاں آپسی اختلافات کے باعث اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو چند ماہ خاموشی میں گزر گئے ، اس دوران اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کسی بھی سطح پر مہنگائی کی کوئی بات نہیںکی گئی، اب جبکہ ہر پاکستانی مہنگائی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہے تو اسے کیش کرانے کے لیے اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر میدان میں کود پڑی ہیں اور عوام سے اظہار ہمدردی کر کے انہیںسڑکوں پر نکلنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے، اپوزیشن اپنی توجہ اور توانائیاں حکومت کو ناکام ثابت کرنے پر صرف کر رہی ہے، اپوزیشن کے ایجنڈے میں دور دور تک عوامی مسائل نہیں ہیں، اسی لیے وہ ایوان سے ہٹ کر سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اپنا رہی ہے ، جو مزید تباہی اور خرابیوںکا باعث بن رہا ہے، کیونکہ جلسے جلوس کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے جس کا بظاہر ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے مگر حقیقت میں ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے، ہمیں بلا وجہ کے احتجاج کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی آئینی ذمہ داریاں ایوان میں پوری کریں۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی کی حالیہ لہر سے ہر پاکستانی پریشان ہے تاہم تنقید برائے تنقید کی بجائے مثبت تنقید کی راہ اپنانی چاہیے ، اگر حکومت کی طرف سے معاشی پالیسی مرتب کرنے میں غلطیاںکی جا رہی ہیں تو جمہوری عمل کا حصہ ہونے اور آئینی ذمہ داریوں کی بنا پر اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے، اور ملک کو معاشی بحران سے نجات دلائے، اپوزیشن جماعتیں یہ فریضہ اسی صورت انجام دے سکتی ہیں جب انہیں اقتدار سے زیادہ ملک و قوم کی فلاح عزیز ہو گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ