سجمع دار عالمی جنگ پختون ہیرو

جمعدار میر مست خان آفریدی پہلی عالمی جنگ کا ایک پختون ہیرو

ویب ڈیسک: پہلی عالمی جنگ (1915) کا ایک نڈر پختون ہیرو جو پہلے فرانس میں برطانیہ کی خاطر جرمنوں سے لڑا لیکن جب ترک خلافتِ عثمانیہ نے مسلمانوں کو برطانیہ کے خلاف جہاد کا حکم دیا تو وہ ایک سیاہ رات انگریز کی غلامی چھوڑ کر اپنے آفریدی ساتھیوں کے ہمراہ سرحد پار جرمن فوج سے جا ملا۔

یہ 1890 کی دہائی تھی جب تیراہ سے دو نوجوان بھائی فوج میں بھرتی کے لیے پشاور کینٹونمنٹ کے ریکروٹنگ سنٹر پہنچے۔ انٹرویو کے دوران ایک انگریز کیپٹن نے بڑے بھائی میر دست خان آفریدی سے پوچھا، فوج کی ملازمت ہے، جنگوں میں لڑنا ہوگا، مشین گن اور توپیں چلیں گی، تمہیں ڈر تو نہیں لگے گا؟ اس پر چھوٹے بھائی میر مست خان نے جھٹ کہا، پختون کے گھر جب بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان سب سے پہلے اذان سے مانوس ہوتے ہیں اس کے بعد وہ فائرنگ کی گھن گرج سنتا ہے، ڈر نام کی کوئی چیز اس کی رگوں میں دوڑ نہیں سکتی۔ دنیا کو کیا پتہ تھا کہ تیراہ کے یہ دو قمبر خیل آفریدی بھائی آگے چل کر عالم تاریخ میں دو الگ الگ ابواب کا اضافہ کرنے جارہے ہیں۔ میر مست خان 58th Vaughan’s Rifles میں سپاہی بھرتی ہو کر تربیت کے لیے ایبٹ آباد پہنچے جبکہ بڑے بھائی میردست خان نے فرنٹئیر فورس کی رجمنٹ55th coke,s Rifles میں منتخب اور ٹرینینگ لیتے ہی ایک بھر پور ایکشن والی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ دونوں ترقی کرتے ہوئے جمعدار کے عہدے پر پہنچے تو سنہ 1914 میں پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ پورا براعظم یورپ باہم دست و گریبان ہوگیا۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی، روس، امریکہ اور جاپان نے مل کر اتحاد بنایا جبکہ جرمنی، ہنگری، آسڑیا اور ترک خلافتِ عثمانیہ محوری طاقت کے طور پر میدانِ جنگ میں اتری۔ برطانیہ نے ہندوسانی افواج کو بھی اپنی اس ذاتی جنگ میں جھونک دیا۔ میر دست خان آفریدی نے اپنی ذاتی ڈائری میں میر مست خان کے متعلق لکھا: میرا چھوٹا بھائی میر مست خان 58th Vaughan,Rifles میں نان کمیشنڈ افسر تھا، وہ بھی میری طرح فرانس آ کر لڑائی میں شامل ہوا۔ اس نے فرانسیسی قصبے،Festubertکے مقام پر 15 مئی 1915 کو ایک بڑے جرمن حملے کے خلاف نہایت بہادری سے اپنی یونٹ کا دفاع کیا۔

جیمز ویلکاک، ایک انگریز میجر نے اس جنگ کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھا: اس دن میں شام سے لے کر اگلی فجر تک برفیلی ہوائوں کے جھونکوں میں سردی سے ٹھٹھرتا ہوا اپنے ہیڈ کوارٹر کے ٹاور پر کھڑا میدان جنگ کا تماشہ کرتا رہا، میں انڈین آرمی کی مشین گن فائر اور جیم ٹِن گرینیڈز سے نکلنے والی آگ کی زبانوں کو لپکتے دیکھتا رہا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میری کور موت کے اس میدان میں ضرور کامیاب ہوگی۔ جنگ کے اختتام پر کچھ بندوں کو میں نے دیکھا جو سر سے لے کر پائوں تک خون میں لتھڑے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا، ہم جرمنوں کو پھانسی نہ کرسکے کیونکہ ان کی گردنیں بے حد موٹی تھیں اور ہمارے پھندے ان پر فٹ نہ ہوسکے۔ اس معرکے میں Garhwal Rifles کے نائیک دروان سنگھ نیگی انڈین ہیرو بن کر سامنے آئے جسے برطانیہ نے وکٹوریہ کراس سے نوازا۔ اس نے شدید زخمی حالت میں سنگین کی مدد سے جرمن حملہ آوروں کو دوبدو جھڑپ میں ہلاک کیا جبکہ دوسری طرف میرے بھائی جمعدار میر مست خان کی بے مثال بہادری پر اسے برطانیہ کا دوسرا بڑا ملٹری اعزازIOM ،(Indian order of merit)
عطا کیا گیا۔ اس موقع پر ایک برطانوی افسر نے میر مست خان کے بارے میں کہا،
Mir mast khan is thoroughly reliable for his tenacity in throwing jam tin bombs against Germans at close range.
”میر مست خان ایک عزم کے ساتھ جرمنوں پر انتہائی قریب سے جیم ٹِن بم پھینکتا ہے، وہ اس قسم کے حملوں کے لیے انتہائی قابل اعتماد ہے۔”
میری اس کے ساتھ پہلی اور آخری ملاقات پیرس کے ایک ملٹری اسپتال میں ہوئی جہاں وہ ٹائیفائیڈ کی وجہ سے داخل ہوا تھا۔ میر مست مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہوا، ہم تھوڑی دیر گھریلو باتوں میں مشغول رہے، اسے والدین اور اپنے بچے یاد آرہے تھے۔ میر مست نے مجھے سرگوشی میں کہا، بھائی میں ان شیطانوں کے لیے مزید نہیں لڑنا چاہتا، میرا عثمانیہ خلافتِ ترکی کے ایک کرنل سے رابطہ ہے، ترک خلیفہ چاہتا ہے کہ افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک مل کر برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کریں، میں عنقریب فرنگیوں کو چھوڑ کر برلن جا رہا ہوں۔ اتنے میں ایک نرس اس کا ٹمپریچر چیک کرنے آئی تو میں نے اسے پشتو میں خاموش ہونے کو کہا۔ میرا بھائی بچپن سے اسلامی ذہن کا حامل تھا، وہ اپنی نجی محفلوں میں فرنگی استعماروں کو ہندوستان سے نکالنے کی پرجوش باتیں کیا کرتا تھا۔ بہرحال اسکے بعد میں اسپتال سے واپس اپنی بیرک آگیا پھر مجھے اس کے بارے میں پتہ نہیں چلا کہ وہ کب اور کیسے پیرس میں اپنی یونٹ سے فرار ہو کر برلن پہنچا۔

جیم ٹِن بم، پہلی جنگ عظیم میں جرمنوں کے خلاف استعمال ہوئے۔

جنگ کے دوران ایک جرمن سپاہی نے اپنی بیوی کو خط میں لکھا: پہلے ہم ہندوستانیوں کا ذکر بڑی حقارت سے کرتے تھے، لیکن آج ہم نے انہیں بڑے قریب سے دیکھا، شیطان جانے انگریزوں نے ان پر کونسا جادو کر رکھا تھا، انہوں نے جب ہم پر ایک شدید حملہ کیا تو مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ شراب کے نشے میں ہیں یا کوئی شیطانی روح ان میں گھس چکی ہے، وہ بے تحاشا نعرے لگا رہے تھے، وہ ہزاروں کی تعداد میں ہم پر وحشی درندے کی طرح بالکل اچانک ٹوٹ پڑے، وہ ہم پر بندوق کی سنگینوں، خنجروں اور تلواروں سے حملہ آور ہوئے، میں نے اپنی زندگی میں اس قدر نڈر سپاہی نہیں دیکھے تھے، یہ بھوری رنگت والے دشمن یقینا نفرت کے قابل نہیں ہیں۔ فرانس میں مقیم ہندوستانی فوجی کیمپوں میں جرمن جہازوں سے جہادی کتا بچے(Leaflets) پھینکے گئے بعد میں یہی پروپیگنڈہ مواد انڈیا اور افغانستان سمیت برطانیہ کی افریقی نو آبادیوں تک پھیلایا گیا۔ برطانیہ کو اس سے سخت تشویش ہوئی کیونکہ وہ یکسوئی سے اپنی جنگ لڑ رہا تھا، ان لمحات میں وہ ایک دوسرے محاذ پر توجہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

ادھر استنبول میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان محمد رشاد نے ایک بڑے ہجوم کے سامنے فتوی جاری کیا کہ اس جنگ کے دوران افریقہ، ہندوستان اور عرب مسلمان برطانیہ، فرانس اور روس کے خلاف جہاد کے لیے نکلیں کیونکہ اب جہاد فرض ہو گیا ہے۔

اسی مہم کے سلسلے میں شہنشاہ جرمنی، قیصر ویلہیم ثانی(Kaiser Wilhelm 2) نے دمشق، فلسطین اور استنبول کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے بڑے بڑے اجتماعات میں لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی، دمشق میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقبرے میں کھڑے ہوکر اس نے کہا، میں اسلامی دنیا اور حرمین شریفین کی دفاع کا حامی بن کر تمہیں ان شیطانی قوتوں کے خلاف جہاد کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ اس کے جانے کے بعد ان ممالک میں پمفلٹ تقسیم ہوئے کہ شاہ جرمنی نے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے حتی کہ بعض سادہ لوح اسے حاجی ویلہیم کے لقب سے پکارنے لگے تاہم انڈین آرمی کے مسلمانوں میں اس جہادی نعرے کے اثرات اس طرح ظاہر ہونے لگے کہ لگ بھگ دوہزار فوجیوں نے جو جنگی خدمات کے سلسلے میں ہندوستان، سنگا پور، عدن اور فرانس میں مقیم تھے، نے بغاوت(Mutiny) کا اعلان کیا اور ان کی ایک بڑی تعداد برٹش انڈین آرمی سے فرار ہوگئی۔ فرانس کے ایک محاذ پر مارچ 1915 کی ایک رات تین بجے کمر توڑ سردی میں 58th Vaughan,s Riflesکا لیفٹینٹ کرنل John Tancred اپنی آفریدی کمپنی کے مورچوں کا عمومی معائنہ کرنے نکلا، وہ چاند کی روشنی میں خاموشی سے زمین پر رینگتا(Crawling) ہوا اپنے مورچوں کے قریب پہنچا، بارش کی وجہ سے ارد گرد کاعلاقہ دلدل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ یہاں اس نے سات آفریدیوں کی ڈیوٹی لگائی تھی، اس نے دھیمے لہجے میں ایک حوالدار کو آواز دی لیکن وہاں ان کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے وہ فوراََ وہاں سے پلٹ کر پیچھے پہنچا جہاں جمعدار مست خان اپنی گن کے ٹریگر پر انگلی رکھے بالکل ریڈ الرٹ کھڑا تھا، کرنل نے اسے مخاطب کیا، مست خان، میرا خیال ہے تمھارے سات بندے فرار ہو چکے ہیں، فی الحال تو ایسا کرو ان مورچوں کی طرف چودہ آفریدی سپاہی بھیجو اور اس کے بعد ان مفرورں کو واپس لانے کی کوشش کرو وہ میرے اندازے کے مطابق زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔ کرنل کو مست خان کی کرشماتی صلاحیت کا پورا ادراک تھا کہ بحیثیت لیڈر آف آفریدی کمپنی وہ ان لوگوں کو بہلا پھسلا کر واپس لوٹنے پر مجبور کردے گا۔ صبح کا اجالا پھیلنے سے پہلے ہی کرنل جون مست خان کو وہیں ڈیوٹی پر چھوڑ کر پیچھے چلا گیا کیونکہ دن کے وقت نقل و حرکت انتہائی خطرناک تھی۔ اگلی رات کرنل نے دو آفریدی سپاہی مست خان کی طرف بھیجے تاکہ اس سے کوئی تازہ خبر لے کر آئیں لیکن ایک گھنٹہ گذرنے کے باوجود وہ لوگ واپس نہیں آئے تو اس نے تین اور بندے بھیجے۔ تھوڑی ہی دیر میں مایوس کن خبر آئی کہ ان مورچوں میں تعینات کل 23 آفریدی اپنیLee-Enfield Rifles سمیت غائب ہو چکے ہیں، ان سب کا تعلق تیراہ کے قمبر خیل شاخ سے تھا۔ فرنگیوں کے لیے اس سے بھی بری خبر یہ تھی کہ ان کا مایہ ناز جنگجو جسے محض چند دن پہلے اعلی برطانوی اعزاز،IOMسے نوازا گیا تھا ان آفریدیوں کے ساتھ فرار ہو گیا ہے۔ فرنگیوں کو مست خان کی فرض شناسی، وفاداری اور بہادری پر بھروسہ تھا۔ رجمنٹ میں کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ مست خان جیسا پیشہ ور جنگجو ان حالات میں ایسی حرکت کر سکتا تھا بہر حال یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سمندر پار برٹش انڈین آرمی یونٹوں میں پھیلی اور اسی دن لندن میں سنٹرل کمانڈ کو بھی اطلاع ہوگئی اس گروپ کی تلاش میں فرانس کی تمام بندرگاہوں اور زمینی راستوں کی نگرانی شروع ہوئی لیکن بیسود۔ میرمست خان کو جرمن سیکرٹ سروس کے ایک اہل کار نے فرانس کی سرحد سے لیکر برلن تک پیچیدہ راستوں کے متعلق ایک نقشہ دیا تھا جو پہاڑوں، ندی نالوں اور جنگلوں سے ہوتا ہوا اسے منزل پر پہنچانے والا تھا۔ اس موقع پرکیپٹن الیگزنڈر لِنڈ نے کہا، بٹالین اس واقعہ کو کبھی بھولے گی نہیں اور نہ ان بھگوڑوں کو معاف کرے گی۔ یہ جنگ کے دوران برطانوی فوج کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ مست خان کو بھی فرنگی افسروں کی بے انصافیوں کا احساس تھا کہ وہ محنتی اور مستحق ہندوستانی فوجیوں کو پرموشن کے موقعوں پر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے تھے، لیکن اس کے فرار کی وجہ پرموشن نہیں تھی کیونکہ اسے ملنے والا برطانوی فوجی اعزازIOM اس بات کی نفی کررہا تھا، بلکہ جرمن جہادی کتابچوں(Leaflets) نے اس کے اندر اسلامی اور پختون غیرت کا ملا جلا احساس پیدا کیا تھا۔


دوسری جانب میر مست خان فرانس میں جرمن مقبوضہ قصبے میں اپنے ساتھیوں سمیت برلن فارن آفس کے اہل کار، پال والٹر کے سامنے بیٹھا انہیں اپنے فرار کی وجوہات اور محرکات کے بارے میں بریفینگ دے رہا تھا۔ میر مست خان نے پال والٹر سے کہا کہ اس کے ساتھیوں سے لی گئی لی انفیلڈ رائفلیں انہیں لوٹا دی جائیں کیونکہ وہ انہیں اپنے ساتھ تیراہ لیجانا چاہتے ہیں۔ والٹر نے کہا کہ اپنی رجمنٹ کے باقی ساتھیوں کو بھی کسی طرح یہاں لا ئو ہم ان میں سے ہر ایک کو ایک جرمن مازر ریوالور اور ایک اعلی کوالٹی رائفل دیں گے۔ جرمن اہل کار کا خیال تھا کہ پٹھان کی خواہش بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ اسے ولائتی بندوق مل جائے وہ اسے تیراہ لیکر اپنے ذاتی دشمنوں کے خلاف استعمال کرے۔ میر مست خان نے اسے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا، آپ کی سوچ غلط ہے ہم فرنگی سرکار کی طرف ملنے والی گیارہ روپے تنخواہ قربان کرنیکے بعد جرمنوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے ملے ہیں کہ وہ اس جنگ میں خلافت عثمانیہ کا اتحادی ہے، ہم سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن اپنے ایمان کا سودا کبھی نہیں کریں گے، میری قوم کے لوگوں کی بھی یہی جذبہ ہے۔ ہاں ہم تیراہ سے برطانوی سرکار کے خلاف جنگ کا آغاز ترکوں کے شانہ بشانہ کریں گے اور جرمن گرینیڈز اور دوسرے ہتھیار استعمال کریں گے جو ہم یہاں فرانس میں دیکھ چکے ہیں۔ جرمن فوجی اہل کاروں نے میر مست خان اور اس کے ساتھیوں کو بیلجئیم کی سرحد پر واقع مقبوضہ فرانسیسی شہرLille سے بذریعہ ریل جرمنی روانہ کیا۔ ریل گاڑی بیلجئیم سے پانچ سو میل کا سفر طے کرتی ہوئی برلن کے جنوب میں ایک سنسان پہاڑی سٹیشن پہنچی جس کے چاروں طرف چیڑھ کا گھنا جنگل تھا۔ میر مست خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پلیٹ فارم پر اترا جہاں سے انہیں ایک فوجی ٹرک میں ایک دور افتادہ کیمپ پہنچایا گیا۔
میر مست خان اور اسکے ساتھیوں کا کیمپ میں شاہانہ ٹھاٹ باٹ تھا، وہ سپیشل لکڑی کے کشادہ کیبن میں مقیم تھے، میر مست خان کو خصوصی پروٹوکول کے تحت بالکل الگ کیبن ملا ہوا تھا جہاں آرام دہ بیڈز اور اوڑھنے کے لیے متعدد گرم کمبل پڑے ہوئے تھے۔ جرمن کیمپ میں جہاد کے موضوع پر منعقد ہونے والی کلاسوں میں ہندوستان کے ایک دولت مند انقلابی لیڈر راجہ مہندر پرتاب بھی لیکچر دیتے تھے۔ اس نے جرمن حکام کو مشورہ دیا کہ برطانیہ کے خلاف جہاد افغانستان کی سر زمین سے شروع کیا جائے، اس کے لیے ایک سفارتی مشن کابل بھیجا جائے جہاں وہ امیر حبیب اللہ خان سے مل کر اسے قائل کرے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد رشاد کی اپیل پر برطانوی ہند کے خلاف جہاد کا اعلان کرے۔ راجہ مہندر پرتاب اور جرمن اہل کاروں نے اس مشن کے لیے میر مست خان کو منتخب کیا۔ چنانچہ تمام آفریدی قیدیوں نے میر مست خان کی تائید کی۔ 15 اپریل 1915 کی ایک سرد ترین صبح وہ ایک سپیشل ٹرین میں اپنے خفیہ مشن کے پہلے مرحلے میں برلن پہنچے۔ میر مست خان اور اس کے ساتھی اب جرمن سفارتی مشن کے باقاعدہ رکن بن چکے تھے، ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات کی منظوری ہوئی۔ اس مشن کی قیادت ایک نوجوان ملٹری آفیسرwerner oto Hentig نے سنبھالی جسے پولینڈ کے محاذ سے واپس بلایا گیا تھا، اسے فارسی اور پشتو پہ عبور حاصل تھا۔

برلن سے کابل تک سفر طویل اور خطرات سے پر تھا لیکن میر مست خان کو اس کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ فرانس کے محاذ پر ا س سے زیادہ ہولناک حالات میں رہ چکا تھا۔ جرمن فارن آفس نے افغانستان کے فرمانروا، حبیب اللہ خان( 1872۔1919) کے لیے بیش قیمت تحائف کا بیگ تیار کیا جس میں ایک عدد طاقتور فیلڈ دوربین، الارم کلاک، سینما پروجیکٹر، طلائی گھڑیاں، سونے کے فانٹین پین، اعلی کوالٹی کے مازر پستول، ایک عددٹیلی سکوپ بردار گولڈ پلیٹڈ رائفل کے پارٹس رکھے گئے۔ اس کے علاوہ پرنس پرتاب کو شاہ افغانستان کے نام ستائیس کے قریب تعارفی خطوط کا پلندہ دیا گیا۔ اس قیمتی متاع کی حفاظت میر مست خان کے ذمے تھی جسے ایک مازر پستول اس مقصد کے لیے دیا گیا تھا۔ پندرہ افراد پر مشتمل اس سیکرٹ مشن میں زیادہ تر دوسرے ہندوستانی شہروں کے جہادی مسلمان شامل تھے جن میں سابق پروفیسر حافظ برکت اللہ نمایاں تھے۔ صوابی کے ایک یوسفزئی پٹھان سید احمد کو بطور خانساماں بھی ساتھ لیا گیا۔ سید احمد بھی فرانس سے گرفتار ہو کر برلن پہنچا تھا۔ یہ لوگ نو اپریل کو رات کی گہری تاریکی میں برلن سے کابل کے لیے روانہ ہوئے۔

میر مست خان وفد کے ساتھ یورپ اور ایران سے ہوتا ہوا آخر کار کابل جا پہنچا، جہاں پرنس نصراللہ خان نے وفد کا خیرمقدم کیا اور انہیں سٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے شاہی محل میں ٹھہرایا۔ اکتوبر 1915 کی ایک صبح جرمن مشن نے پغمان کے برف پوش پہاڑ پر واقع شاہی محل میں امیر حبیب اللہ خان کے ساتھ ملاقات کی۔ مہندر پرتاب نے جب انہیں شہنشاہ جرمنی، قیصر ویلہم اور ترک راہنما سلطان محمد رشاد کے خطوط اور تحائف پیش کیے تو امیر حبیب اللہ خان نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کہا، میں سمجھتا ہوں تم سوداگر ہو، اس لیے اپنی چیزیں یہاں میرے سامنے رکھو میں ان میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھا کر باقی واپس کردوں گا۔ اس کے بعد مہندر پرتاب نے یورپ کے وہ نایاب تحفے جب ان کے سامنے پھیلائے تو وہ انہیں دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ پھر انہوں نے وہ ساری چیزیں بسیار تشکر کہہ کر قبول کر لیں۔ مشن کے راہنما، مہندر پرتاب، ترک ملٹری اتاشی، کاظم بے، پروفیسر برکت اللہ اور جرمن افسر ہنٹگ نے امیر حبیب اللہ خان کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ جنگی کوششوں میں ترک خلیفہ کا ساتھ دیتے ہوئے برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرے لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اس سے وفد کو بڑی مایوسی ہوئی۔ 1916 میں امیر حبیب اللہ خان نے کابل میں لویہ جرگہ میں اعلان کیا کہ ان نازک حالات میں افغانستان کا غیر جانبدار رہنا اس کی بقا کے لیے ازحد ضروری ہے ورنہ برطانیہ اور روس رواں عالمی جنگ کابل لے آئیں گے۔ مئی 1916 میں جرمن مشن کابل میں انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے ہوئے بالاآخر تحلیل ہوگیا۔ ہنٹگ اپنے ساتھیوں سے بڑے جذباتی انداز میں جدا ہوا۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا تو اس نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ میر مست خان کو کہا، دوست آج کے بعد میں اپنے اس گھوڑے کو میر مست خان کے نام سے پکاروں گا۔ شہزادہ نصر اللہ خان نے میر مست خان کو تیراہ میں فرنگی حکومت کے خلاف جہاد کے لیے ایک بڑا آفریدی لشکر تیار کرنے کی تجویز دی تھی اور اس کے لیے مکمل مالی سپورٹ کا وعدہ کیا تھا۔ جولائی میں تیراہ کی باغ مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر میر مست خان نے تقریبا پانچ ہزار افراد پر مشتمل ایک اجتماع کے سامنے جن میں انڈین آرمی کے مفرور آفریدی سپاہی بھی خاصی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے انگریز سرکار کے خلاف ایک جوشیلی تقریر کی، لوگوں نے سرخ سفید چہروں والے دو ترک فوجی افسروں کو بھی دیکھا جو اس کے پیچھے کھڑے تھے۔ خلیفہ سلطان محمد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیراہ میں اسکول، کالج، اسپتال اور اسلحہ فیکٹریاں کھولے گا، یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے پھر تم لوگ فرنگیوں کی فوج میں دو پیسے کی نوکری نہیں کرو گے جہاں تمہیں ترقی بھی نہیں دی جاتی۔ اب ترکی یہاں تیراہ رجمنٹ بنا رہا ہے جس میں تم لوگ بھرتی کیے جائو گے، مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں آفریدی قوم کے جوان کرنل، میجر اور کیپٹن بنیں گے۔ ترک افسر تمہیں ٹرینینگ دیں گے جب سلطان جہادکا اعلان کرے گا تو تم یہاں سے برطانوی تنصیبات پرحملے کرو گے۔ میر مست خان کی تیراہ رجمنٹ میں چار سو انڈین آرمی کے مفرور Deserterبھرتی ہوئے، ان کی تنخواہ شروع ہی سے سولہ روپے ماہانہ مقرر ہوئی جو اس زمانے کے حساب سے بیحد پرکشش رقم تھی۔ میر مست نے ایک مقامی مالدار ساہوکار سے قرض لے کر ان لوگوں کو پہلی تنخواہ ادا کی کیونکہ شہزادہ نصر اللہ خان نے بعد میں مالی مدد کا پکا وعدہ کیا تھا جوکبھی ایفا نہ ہو سکا۔ قمبر خیل آفریدی تو اتنے خوش تھے کہ انہوں نے میر مست کے گھر کے سامنے دنبے ذبح کر کے اسے تحفہ کیے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، قبیلے کے مشرانوں نے جرگے میں فیصلہ کیا کہ تیراہ کی سر زمین سے برطانوی تنصیبات پر حملے نہیں کیے جائیں گے اور نہ میر مست خان کا لشکر یہاں رہے گا۔اس کے بعد انہوں نے ترک فوجیوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے انہیں تیراہ سے نکلنے کا حکم دیا۔ پھر جرگے نے میر مست خان کے گھر کونذر آتش کیا۔ شہزادہ نصر اللہ خان نے بھی وعدہ خلافی کرتے ہوئے تیراہ رجمنٹ کے سپاہیوں کی تنخواہیں بندکر دیں کیونکہ وہ امیر حبیب اللہ خان کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ میر مست خان کے لیے یہ صورت حال خاصی تکلیف دہ ثابت ہوئی کیونکہ اس نے اپنے لشکر کی تنخواہیں کسی سے قرض لیکر ادا کیں تھیں۔ دوسری طرف فرانس میں اپنی رجمنٹ سے فرار کی وجہ سے وہ انڈین آرمی کی پنشن سے بھی محروم ہو چکا تھا۔ بہر حال اس کی تیراہ رجمنٹ کا انجام ناکامی پر منتج ہوا۔ ہنٹگ نے برلن پہنچنے کے بعد اپنی حکومت کو میر مست کی برطانیہ کے خلاف ان تمام جنگی کوششوں کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے اسے آئرن کراس عطا کرنے کی سفارش کی تھی۔ یہ جرمنی کا اعلی فوجی اعزاز تھا جسے وصول کرنے وہ ایک بار پھر برلن پہنچا۔ برطانوی اورہندوستانی اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع ہوئی۔ ڈیلی گارجین نے لکھا :Two pathan heros of the war, a tale of loyalty and betrayalجنگ کے دو پختون ہیرو، وفاداری اور غداری کی داستان۔ (انگریز کی دانست میں برطانیہ کے لیے لڑ نے والا وفادار جبکہ جرمنی کا ساتھ دینے والا غدارتھا) سنہ1915 میں تاریخ کے اوراق پر ایک عجیب واقعہ رقم ہوا۔ برٹش آرمی کے سابق جنگی ہیرو میر مست خان آفریدی کو جرمنی نے اپنا ہیرو قرار دیا اورپھر ایک چمکیلی صبح برلن کے پریڈ گرائونڈ میں ہزاروں جرمن فوجیوں کے سامنے شاہِ جرمنی قیصر وِیلہم نے اس کے سینے پر اپنا اعلی ترین ملٹری اعزاز آئرن کراس سجایا تو اس کے اگلے دن برطانیہ کی ساحلی تفریح گاہ برائٹن کے رائل پوئلین پیلس کے سبزہ زار پر ایک رنگا رنگ تقریب کے دوران انگلینڈ کے بادشاہ جارج پنجم نے میر مست خان آفریدی کے بڑے بھائی جمعدار میر دست خان آفریدی کو ایپرس (بیلجئیم) کے برفیلے محاذ پر جرمنوں کے تباہ کن گیس اٹیک کے دوران بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر برطانیہ کا بلندترین تمغہ وکٹوریا کراس عطا کر کے جرمنی کے ساتھ حساب کتاب برابر کر دیا۔ انگریز کے سرکاری ریکارڈ میں جسے مفرور اور غدار لکھا گیا اسی میر مست خان آفریدی کو ہندوستان کے مسلمانوں نے کاروانِ آزادی کا ہیرو قرار دیا۔ خلافتِ عثمانیہ کی خاطر اپنی فوجی ملازمت اور پرکشش پنشن کو قربان کرنیوالا یہ ہیرو کسمپرسی کی حالت میں سنہ1919 کی عالمی وبا سپینِش فلو کا شکار ہو کر تیراہ میں اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوا۔ میر مست خان تو تاریخ کے صفحات پر تو امر ہوگیا لیکن اپنوں نے اسے یکسر فراموش کر دیا۔

مشتاق جدون صوابی وال
mushtaqjadoon1978@gmail.com