مشرقیات

قدرت نے تغیر و تبدل بھی ا نسان کے فائدے کے لئے رکھا ہے انسان یکسانیت سے اکتانے والی مخلوق ہے پاکستانی تو تبدیلی کے دیوانے ہیں تبدیلی کا نعرہ کیا لگ گیا کہ لوگ اسی سمت دوڑے چلے گئے اب تبدیلی گلے پڑ گئی ہے تو اور تبدیلی کے منتظر ہیں لیکن اتنی جلدی تبدیلی نہیں آتی پہلے اس تبدیلی کو خوب بھگت تولیں جب تبدیلی کا مزہ خوب چکھیں اور مہنگائی ومسائل سے پوری طرح لطف اندوز ہوجائیں اس کے بعد دیکھا جائے گا البتہ ایک بڑی تبدیلی اب ہوگئی ہے ام التبدیلی کے تبادلے کے بعد تبدیلی معکوس کی فضا بہرحال بننے کی توقع ہے بابائے مشرقیات کہتے ہیں کہ مجھے تبدیلی سے کوئی سروکار نہیں جوبھی آئے جو کولو ہوکا بیل تھا وہ کولو ہو کا بیل رہے گا گدھا کبھی گھوڑا نہیں بنے گا کھوتہ کھوتاہی رہے گا اس کے باوجود دیکھو تو حضرت انسان بدل رہا ہے یقین جانئے کہانیوں کے کردار بھی اب پہلے سے نہیں رہے۔وہ بھی حضرت انسان کی طرح چالاک ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب کوے اور لومڑی کی کہانی کو ہی لے لیجئے جس میں کوے کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا دیکھ کر لومڑی کوے کے خوش گلو ہونے پر عرض کرتی ہے کہ اے کوے میاں کوئی گانا تو سنائو۔جس پر کوا کائیں کائیں کرتا ہے ، اس کے منہ سے گوشت کا ٹکڑا گرتا ہے،لومڑی اسے اٹھاتی ہے اور اپنی راہ لیتی ہے۔وہی کہانی اب بدل کر ایسے ہو گئی ہے کہ یونہی لومڑی کوے کی خوش الحانی کی تعریف و توصیف میں عرض کرتی ہے کہ کوے میاں اپنی پیاری سی آواز میں کوئی ملکہ ترنم نورجہاں کا پر ترنم گانا تو سنائو۔اب کہانی کے مطابق کوے کو بھی فوراً گانا شروع کر دینا چاہئے مگر نہیں اب ایسا نہیں ،میں نے کہا نا کہ زمانہ بدل گیا تو کہانیوں کے کرداروں میں بھی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔اب کوے لومڑی کے منہ سے اپنی تعریف سنتے ہی ،اپنے منہ والا گوشت کا ٹکڑا کھاتا ہے،زبان سے اپنی چونچ صاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ لومڑی بی زمانہ بدل گیا ہے اب تم بھی اپنے گھر کی راہ لو۔ایسے ہی بندر اور ٹوپیاں بیچنے والے سوداگر کی کہانی بھی سب نے پڑھ رکھی ہوگی۔کہانی کیا ہم تو حقیقت میں بھی ٹوپیاں پہنانے میں اس قدر ماہر ہو گئے ہیں کہ ہمیں اس کام کے لئے اب بندروں کی قدرے ضرورت نہیں رہی۔یاد دہانی کے لئے عرض کردوں کہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی کہ ٹوپیاں فروخت کرنے والا ایک سوداگر دوپہر کی گرمی و دھوپ سے بچنے کے لئے ایک درخت کے نیچے استراحت فرما رہا ہوتا ہے ۔اس درخت پر بہت سے بندر اپنا مسکن بنائے ہوتے ہیں۔سوداگر کو سوتا دیکھ کر(بندروں نے بھی خیال کیا ہوگا کہ سوداگر بھی پاکستانی قوم کی طرح استراحت میں ہے)بندروں نے اس کی ٹوپیاں چراکر ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔جب سوداگر نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس ٹوپیاں اب بندروں کی ملکیت میں ہیں لہذا انہیں واپس لینے کے لئے کوئی ترکیب کی جائے۔چالاک سوداگر جانتا تھا کہ بندر نقل اتارنے کے ماہر ہوتے ہیں۔پھر بندر نے نقل اتاری اورتاجروں کو ٹوپیاں واپس مل گئیں انتظار کریں کہانی کے کرداروں کی تلاش ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا