نری جہالت کے مظاہر

پاکستانی معاشرے کے بارے میں تواتر وتسلسل کے ساتھ ایک بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ یہاں دوقسم کی انتہا پسندی چلی آرہی ہے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ پاکستان کا مطلب کیا؟ کے نعرے کو اپنے من مانی معانی و تعبیرات وتشریحات پہناتے ہوئے یہاںٹیٹھ تھیوکریسی(ملائیت) پرمبنی حکومت کے قیام کے مطالبے کئے جاتے رہے ہیں۔دوسری طرف اسی وطن عزیزمیں ایسے دانشوروں اور سیاستدانوں کی بھی کمی نہیں کہ ان کو ریاست و حکومت کے حوالے سے اسلام اور اس کے متعلقات سے خداواسطے کا بیر ہے ۔ ان دوقسم کی انتہا پسندیوں کے درمیان کے کشمکش کے نتیجے میں کچھ طبقات ایسے بھی وجود میں آئے ہیں جو معاشرے میں مذہی کارڈ کو بہت غلط جگہوں پر استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔
جنرل ضیاء الحق نے آئین میں جب سے 295-Cکو شامل کیا ہے ‘ اس وقت سے لیکر آج تک یہ سلسلہ بہت زور پکڑگیا ہے کہ انفرادی سطح سے لیکراجتماعی معاملات میں بعض اوقات اس قانون کا استعمال غلط طورپر سمجھا اورکیا گیا۔ عوام نے اس کو یوں سمجھا کہ بس جب بھی کسی نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو اسے اسی قانون کے تحت حوالہ قانون کرنے کے بجائے خود انہیں یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ خود ہی مدعی اور منصف بن کر معاملے کو نمٹایا جا سکتا ہے حالانکہ یہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں کہ مدعی منصف بھی بن سکتا ہے یا عوام قانون کو ہاتھ میں لیکر سینہ تانتے ہوئے”مجاہد و غازی”بننے کے دعویدار بھی ہوں۔
اس میں شک نہیں کہ نائن الیون کے واقعات نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے ۔ گزشتہ بیس برسوں میں دنیا کے تقریباً ہر خطے میں انتہا پسندی اس کے باوجود زور پکڑتی رہی ہے کہ اس کے خاتمے کے لئے امریکہ ‘ نیٹو اور پاکستان اور دیگر ملکوں نے مل کر طویل جنگیں لڑی ہیں اور یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف لڑتے لڑتے کئی ایک ممالک نے اس کی آڑ میں اپنے مفادات بھی حاصل کرنے کی کوششیں کیں ‘ بالخصوص اسرائیل اور بھارت نے کہ ایک نے فلطینیوں اور دوسرے نے کشمیریوں کے اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کو بھی اس میں لپیٹنے کی کوشش کی اور اس تناظر میں ان دو مظلوم عوام پرجوظلم وستم روا رکھا گیا اس کے اثرات معاشروں پر مرتب ہوئے بغیر نہ رہے ۔ بھارت میں ہندوتوا تحریک کے تحت وہاں کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسیات میں مذہب و قومیت کا کارڈ پھیلتا چلا آرہا تھا ۔ لیکن مذہب کا کارڈ کبھی اس انداز سے نہیں کھیلا گیا جس انداز سے گزشتہ کئی برسوں سے ٹی ایل پی استعمال کر رہی ہے ۔ مولانا خادم حسین کی بعض تقاریر جن کے کلپس سوشل میڈیا پر ہر وقت دستیاب ہیں۔ بہت ہی انتہا پسندانہ ‘ جارحانہ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ اس تحریک نے اس کے پیروکاروں کو بالکل بے لگام کر دیا ہے حالانکہ اس سے پہلے جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی دو بڑی اسلامی تحریکیں پاکستان کی سیاست میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی موجود رہی ہیں لیکن کہیں بھی اس قسم کے واقعات نہیں ہوئے کہ ان کے ہاتھوں پولیس والے شہید ہوئے ہوں۔ ناموس رسالتۖ اور حرمت رسول ۖ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے عقیدے کی اساس ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی رو سے کسی کو بھی یہ حق نہیں ملتا کہ قانون کو خود نافذ کرنے کی کوشش کرے بلکہ راہ راست یہ ہے کہ جو بھی اس جرم کا ارتکاب کرے ‘ اسے شواہد ‘ دلائل اور ثبوت کے ساتھ قانون کے حوالے سے کرکے مقدمہ و عدالت کے ذریعے انجام تک پہنچایا جائے ۔ ماورائے عدالت کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچانا دنیا کے کسی قانون بالخصوص اسلامی تعلیمات میں کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ سیالکوٹ کے راجکو انڈسٹری کے سری لنکن منیجر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ یقینا نری جہالت اور جدید جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں یہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ننگ انسانیت اور باعث شرم ہونے کے علاوہ بہت بڑے نقصانات کا حامل واقعہ ہے ۔ اس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی عالمی سطح پر مشکلات میں گھرے پاکستان کے لئے ایک اور بڑی مصیبت آں پڑی ہے سری لنکا جنوبی ایشیا میں ہمارا عظیم دوست ہے ۔ لیکن اس واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے سیالکوٹ میں یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے کہ دن دیہاڑے لوگوں کو جم غفیر کے سامنے مار مار کر قتل کیا جاتا ہے لہٰذا حکومت ‘ علماء اور سماجیات کے دانشوروں کو اس حوالے سے سر جوڑ کر اقدامات کرنا ہوں گے ۔ علماء پاکستان بالخصوص ٹی ایل پی کو کھل کر اس واقعے کی مذمت کرنا لازم ہے کیونکہ وہاں کچھ لوگ اس جلتی لاش پر کھڑے ہو کر تاجدار ختم نبوت کے نعرے بھی لگا رہے تھے رحمت للعالمینۖ کے اسم مبارک کو اس طرح بے جا طور پر استعمال کرنے پر دل و روح کو سخت اذیت پہنچی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کو چاہئے کہ پارلیمنٹ میں متفقہ طور پراس واقعے کی مذمت کی قرارداد کے ذریعے سری لنکا کی حکومت ‘ منیجر صاحب کے والدین ‘ بیوی بچوں کے دلاسے کے انتظامات میں تاخیر نہ کرے اس کے علاہ اس جانکاہ والمناک واقعہ میں ملوث لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں جلد از جلد کھڑا کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں و اقدامات فی الفور کئے جائیں۔
اگرچہ اس قسم کے عناصر امریکہ ‘ کینیڈا ‘نیوزی لینڈ ‘ بھارت و اسرائیل سے لیکر دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ معاشرے کی ساخت پر داخت اور اس سے منسلک لوگوں بالخصوص منبر و محراب سے لوگوں کے اذہان کی تشکیل کے انتظامات کئے جائیں۔
پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی بالخصوص مسلکی فرقہ واریت پر قابوپانے کے انتظامات کی اشد ضرورت ہے ۔ عوام بالخصوص ان جذباتی مذہب پرستوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تم لوگوں کے اس قسم کی حرکات کا پوری پاکستانی قوم کو عالمی سطح پر جو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اس کا نہ تم اندازہ لگا سکتے ہو اور نہ ہی تمہیں اس کا ادراک ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین متین کو جناب خاتم النبینۖ کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار