مہنگائی کی نئی اور شدید لہر

پٹرول اور ڈیزل سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے مہنگائی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونافطری امر ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جس سے اشیائے خورونوش، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں نئی بلندیوں پر پہنچنے لگی ہیں اور کم اور متوسط آمدنی والے طبقوں پر دبائو بڑھ گیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مختلف طبقوں اور عناصر کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آرہا ہے لیکن اس رد عمل کا تعلق عوام کے مفادات اور عوام کے لئے احتجاج کرنا کم دیگرعوامل کا عنصر زیادہ ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا بہرحال بنیادی مقصد سیاسی طور پر حکومت کو دبائو میں لانا ہوتا ہے جبکہ تاجر برادری احتجاج کرکے قیمتوں میں اضافے کی یا تو راہ ہموار کرتی ہے یا قیمتوں میں اضافے کے عمل کو مجبوری ظاہر کرتی ہے یوں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کے اثرات باآسانی عوام پر منتقل ہو جاتے ہیں ان دو عوامل کے باوجود ان کے احتجاج کا عمل بہرحال من حیث المجموع عوامی جذبات سے حکومت کو آگاہ کرنا ہی ہے۔ دیکھا جائے توپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ایندھن یا دیگر اخراجات کے مد میں اضافے کے اثرات سے سب سے متاثر ہونے والا طبقہ عام آدمی اور تنخواہ دار طبقہ ہے جوسب سے متاثر ہونے کے باوجود نہ تو آوازبلند کرنے اور احتجاج کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس طبقے کے پاس کوئی اور صورت ہے ۔ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے آئندہ چند روز میں دوہرے اثرات نظر آئیں گے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان کے لئے درآمدی بل کو پورا کرنا مشکل ہو جائے گا اور جنوری میں سب سے زیادہ 13 فیصدمہنگائی کے بعد اب شاید لوگوں کو فروری میں بھی کوئی ریلیف نہ ملے۔کرنٹ اکائونٹ پر دبائو اور مہنگائی کی بلند ہوتی شرح تباہی کا سبب بنے گی اور حکومت کے لئے اپنے ٹیکس اہداف حاصل کرنا مشکل بنا دے گی۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے توکوئی بھی شعبہ اس سے محفوظ نظر نہیں نہیںآتاکسانوں کو خدشہ ہے کہ پیداواری لاگت میں غیرمعمولی اضافے کے سبب زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوسکتا ہے’ جس سے دیہی معیشت میں لیکویڈیٹی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔گندم کی قیمتیں پچھلے 3سالوں سے بڑھ رہی تھیں اور اب مزید بڑھیں گی۔ اس سب کے اثرات گندم اور آٹے کی قیمتوں پر ظاہر ہوں گے، گندم کی قیمت اس وقت کم ہے اور اس پر اثرات لوگوں کو فوری طور پر محسوس نہیں ہو ں گے’ لیکن آنے والے دنوں میں اس کی قیمت پر ضرور فرق پڑے گا۔اسی طرح اپریل کے پہلے ہفتے سے شروع ہونے والے رمضان سے قبل ڈیزل کی قیمت میں 9.53روپے فی لیٹر کا اضافہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا بھی سبب بنے گا۔ کیونکہ دودھ سے تیار مصنوعات پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ سے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔تیل کی قیمتوں میں اس اضافے سے نقل و حمل بھی مہنگی ہوگی جس کے سبب مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ر ہی سہی کسر نکالنے کے لئے کافی ہے وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مہنگائی کا ہر کوڑا عوام کی کمر پر ہی برستا ہے ۔مہنگائی پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔تیل وگیس اور بجلی میں ہر اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتاہے ۔ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں عاجز اور پریشان ہے ۔ایک طرف حکومت اور اداروں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات زمین پر نظر نہیں آتے ۔اب اگر معیشت میں بہتری کے آثار ہیں تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔معیشت کی بہتری کے اثرات اب عام آدمی تک پہنچانا لازمی ہوں گے۔حکومت معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے ۔اس کے سوا عام آدمی کو معیشت کی بہتری کے دعوئوں پر یقین نہیں آسکتا ۔ملکی معیشت بہتر ہو اور معاشرہ اس کے اثرات سے محروم رہے یہ قرین انصاف نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو انتظامی مشینری اورقانون کا سہار ا لے کر مہنگائی کا علاج دریافت کرنا چاہئے ۔مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ کچھ انتظامی عناصر مافیاز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کر رہے ہیں۔ جس سے مہنگائی کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا ۔اس کا حل نکالنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے ۔انتظامیہ کے ذریعے بازاروں اور مارکیٹوں کی نگرانی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ