ہارس ٹریڈنگ کی شکایات اور محاذ آرائی میں اضافہ

وطن عزیز کی سیاست میں حصول مفادات کے لئے تمام اخلاقی قدروں کا پھلانگ جانا کوئی معیوب بات نہیں رہی۔وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری سے لے کر تحریک عدم اعتماد جمع کرنے سے اب تک ملک میںجہاں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے وہاں ہارس ٹریڈنگ اور بولیاں لگنے کے الزامات کی بھی بھرمار ہے جہاں ایک جانب حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی جماعت کے ارکان کواپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لئے محفوظ مقامات پر منتقلی کی گئی ہے وہاں پر حکمران جماعت کے بعض اراکین آزادانہ طور پر بھی حکومت اور اپنی جماعت پر تنقید کرتے ہوئے سامنے آئے ہیں اس ساری صورتحال میںہارس ٹریڈنگ کس حد تک ہوئی ہے اس کا تو علم نہیں البتہ بعض اراکین جس طرح قرآن عظیم کی سورتوںکے کتابچوں پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ طور پر کوئی رقم وصول نہ کرنے کی قسمیں کھا رہے ہیںان پر کم از کم اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں سیاسی وفاداریاں کروڑوں روپے وصول کرکے تبدیل کی جائیں یا پھر آئندہ انتخابات میں جماعتی ٹکٹ کے وعدے پر اپنی پارٹی سے غداری کا ارتکاب کیا جائے اور جس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے ہوں اسی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا جائے اس طرح اب تک بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی اسے دہرایا جا رہا ہے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا اور ہارس ٹریڈنگ ہماری سیاست کی وہ بدعت ہیں جس کی وجہ سے نہ کوئی حکومت مستحکم بنتی ہے اور نہ ہی ملکی سیاست میںبہتری آتی ہے البتہ تازہ صورتحال میں حکومت کی جانب سے جس طرح کے رد عمل کا اظہار سامنے آیا ہے وہ ملکی سیاست کا ایک نیا عنصر ہے جس میں ایوان کے اندر کی لڑائی عوام اور سڑکوں پر لانے کا خدشہ ہے کل جو لوگ حکومت کی تشکیل میں ساتھ دینے پر خوب تھے آج وہی ناخوب ٹھہرے دلچسپ امر یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے دفاع میں جو دلائل چارسال قبل حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما دیتے تھے آج وہی دلائل حزب اختلاف کی جماعتیں دہرا رہی ہیںجو شکوہ شکایات پہلے حزب ا ختلاف کو تھیں وہ اب حکمران جماعت کا موقف بن گئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ماضی اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے صرف یہی نہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی کسی نہ کسی حد تک ہر دو فریقوں میں سے ایک فریق اعانت کے حصول سے تمام تر دعوئوں کے باوجود احتراز نہیں کرتا ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا کر حکومت کا خاتمہ یقینا حزب اختلاف کا آئینی اور جمہوری حق ہے اور حکومت کو دفاع کا حق اسی آئین اور دستور کے مطابق حاصل ہے لیکن اس کے لئے ہارس ٹریڈنگ یا غیر سیاسی قوتوں کی مدد حاصل کرنا دستور اور آئین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ اگر اسے غداری میں شمار کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اس طرح سے بچ جانی والی حکومت ہو یا اقتدار میں آنے والی حکومت کبھی بھی مستحکم اور جمہوری روایات کی حامل نہیں ہو سکتی بلکہ ان عناصر کے ہاتھوں اس طرح کی حکومتیں پینڈولم بن جاتی ہیں جو باقی مدت اقتدار عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کو رفع کرنے کی سعی کی بجائے ان طفیلیوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھنے پر مجبور ہوتی ہے حکومت اور حزب اختلاف ہر دو کے حق میں بہتر یہی ہو گا کہ وہ راست اور معروف طریقے سے حکومت بچانے اور تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیاب کرنے کا جمہوری عمل اختیار کریں اور بیساکھیوں کی مدد لینے سے گریز کیا جائے ۔ملکی سیاست میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر غیر جانبدارانہ نظر ڈالی جائے تو افسوس کا اظہار کئے بناء نہیں رہا جا سکتا ‘ سیاست کے تقاضے افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کی بات سن کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دست تعاون بڑھانے سے عبارت ہے ‘ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد حزب ا ختلاف کی جماعتوں سے تعاون حاصل کرکے ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مخاصمت بڑھانے ‘ انہیں نامناسب القابات سے نوازنے اور آئینی تقاضوں کے مطابق دست تعاون بڑھانے سے گریز کی پالیسیاں ا ختیار کیں ‘ جن معاملات پر قائد ایوان اور قائد حزب ا ختلاف کے مابین آئینی ضرورت کے تحت میل ملاقات اور گفت و شنید کی ضرورت تھی وہ بھی پوری نہیں کی گئیں ۔بہرحال تیزی سے لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کو باہم گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل کیا جائے ‘ جس کے لئے اہم ذمہ داری حکومت پر عاید ہوتی ہے اور جس طرح بعض وفاقی وزراء بھی اسی جانب اشارے کر رہے ہیں۔اب آنے والے انتخابات میں مدت ہی کتنی رہ گئی ہے ‘ اس لئے بہتر یہی ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماء بھی ا پنی سوچ تبدیل کرکے ملکی مفاد میں تحریک عدم اعتماد کی واپسی پر ہمدردانہ غور کریںاور کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے کیونکہ تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ۔پاکستان کے ازلی دشمن پاکستان کو نہ سیاسی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ان کے سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں مناسب فیصلہ کرنا پڑے گا اور اس بحران سے خوش اسلوبی سے نکلنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال