مشرقیات

یہ سطور سرکار کو نیک و بد سمجھانے کے لیے نہیں باندھی جا رہیں سرکار جنگل کی شیر ہوتی ہے اس کی مرضی جو چاہے کرے ،بلکہ جو نہ بھی چاہے وہ بھی کر سکتی ہے ہم تو ووٹ دے کر بعد میں گالیاں دیتے رہتے ہیں سرکار کو ،بس یاد یہ رہے کہ سرکار صرف سرکاری جماعت نہیں ہوتی ہمارے ہاں کی تمام سیاسی جماعتیں ہی سرکار ہوتی ہیں جب چاہا جہاں چاہا قانون ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئیں اب اسلام آباد کی انتظامیہ ایک بار پھر سر پکڑ کر بیٹھی ہے کہ جو وعدے سرکار نے ان سے کیے تھے بابت سڑکیں بند نہ کرنے کے وہ ہوا میں اڑادیے گئے اور اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی چلے گا۔اس مقصد کے لیے سرکار نے پوری تیاری کی ہوئی ہے لاٹھیوں کو تیل اور رنگ دینے کے بیانا ت کافی نہیں سمجھے گئے تو سوشل میڈیا پر باتصویر تقریب رونمائی بھی کر دی ،یہ بھی کافی نہیں سمجھا گیا تو ویڈیوز کے ذریعے ایک دوسرے کے کارکنوں کو کھلے عام پیغام دیا جانے لگا کہ ”تو ذرا آکے تو دیکھ”۔ماحول بن گیا تمام تر تصادم کا تو اسلام آبا د کی انتظامیہ خاص کر پولیس کو فکر لگ گئی کہ لاٹھیوںکی اس بھرمار کے سامنے قانون کی لاٹھی خاک کام آئے گی۔اب دوڑی دوڑی انتظامیہ عدالت پہنچی ہے کہ آپ جناب کی تمام تر تاکید کے باوجود سرکار نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر لی ہے انہیں روکیں ہمارے بس کی بات تو بس،سوال یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ان جتھوںکو کون روک سکتا ہے ،لاکھوں نہ سہی ہزاروں افراد بھی دارالحکومت میںداخل ہو گئے تو ان میں سینکڑوں اپنے ساتھ اسلحہ بھی لے جائیںگے جیسے کہ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ پولیس کی لاٹھی کے مقابلے میں لاٹھیاں بھی حرکت میں آئی تھیں اور گولیاں بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں چلیں جس سے کئی لوگ مارے گئے تھے اب ان نامعلوم افراد کو روکے گا کون جب یہ ہزاروں کی تعداد میں جانے والے جتھوں کے ہجوم کا فائدہ اٹھا کر اسلام آباد بڑی آسانی سے پہنچ گئے ہیں۔کیا ہماری سرکا ر یعنی کہ سیاسی جماعتیں نہیں جانتیں؟ بہت اچھی طرح جانتی ہیں تاہم اپنی طاقت کی نمائش ضروری ہے کہ اسی طاقت کے اظہارکی بدولت وہ ہما شما پر رعب جما کر ووٹ بھی لیتی رہی ہیں ،ادھر ہما شما بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کے ان نقیبوں میں سے اسی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو زور دار ثابت ہو۔تو جناب تصادم کا تمام تر سامان کرنے کے ان ذمہ داروں کو بلائیں عدالت ،سرکار میںشامل ہر اہم رہنما کو ڈالیںجیل میں نقص امن کا قانون تو آپ کے ہاتھ میں ہے پھر کاہے کی فکر۔رمضان کا مہینہ جیل میں گزار کر ہماری سیاسی قیادت ہی نہیں لوگوں کی بھی پوری توجہ رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے پر ہوگی۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات