بک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے

یادش بخیر ‘غالباً پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ کے دور میں سردریاب اور ناگمان کے مقام پر عوام کی تفریح کے لئے دریا کنارے چھوٹے چھوٹے ہوٹلز قائم کرنے اور ان دریائوں میں فیری بوٹس یعنی کشتیاں چلا کر سیاحت کو فروغ دینے کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا ‘ تاہم بعد میں اس منصوبے کا کیا بنا؟ اس بارے میں حکومتی سطح پر کوئی سرگرمی دیکھنے کو تو نہیں ملی ‘ البتہ انہی مقامات پر عرصہ دراز سے نجی طور پر قائم گنتی کی دکانوں میں اضافہ کے علاوہ سادہ سی کشتیوں کے ذریعے لوگوں کوان دریائوں میں سیر سپاٹے کرنے کے مواقع ضرور ملتے رہے ہیں ‘ ان جھگی نما دکانوں میں ابتداء میں یقینا دریا کی تازہ مچھلی ضرور ملتی ہوگی مگر بعد میں ان مچھلیوں کے حوالے سے لفظ تازہ کے استعمال پر ضرور سوالیہ نشان اٹھتے دکھائی دیتے اور اس حوالے سے اس لطیفے کی یاد میں آتی رہی جب ایک شہر میں مچھلیاں فروخت کرنے والے نے اپنی دکان پر ”یہاں تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے” کا بورڈ آویزاں کیا توایکدن کسی نے اسے مشورہ دیا کہ بورڈ میں یہاں کا لفظ فالتو ہے ‘ ظاہر ہے مچھلی یہیں فروخت ہوتی ہے تو لفظ یہاں کی کیا ضرورت ہے ‘مشورہ صائب تھا تو دکاندار نے یہاں کے لفظ پر رنگ پھیر کر اسے مٹا دیا ‘ یوں مختلف اوقات میں کچھ دوسرے لوگ بھی مشورے دیتے رہے اور دکاندار ان کی خواہش کے مطابق سائن بورڈ سے الفاظ حذف کرتا رہا یوں صرف مچھلی رہ گیا’ مگر ایک صاحب نے اس پربھی اعتراض کیا کہ مچھلی کی”بو” توکئی گز دور ہی سے محسوس ہوتی ہے پھر اس کی بھی کیا ضرورت ہے’ یوں مچھلی فروش نے سائن بورڈ ہی ہٹا دیا بات دریا کی تازہ مچھلی کی ہو رہی تھی جوان جھگی نما ہوٹلوں میں گاہکوں کو پیش کی جاتی تھی’ تاہم جس طرح مچھلی فروش کی دکان پرلگے سائن بورڈ سے کسی گاہک کے مشورے پرلفظ تازہ ہٹا دیا گیا تھا ‘ سردریاب اور ناگمان کے مقامات پر خصوصاً سردیوں کے دنوں میںجب ان دریائوں میں پانی بہت ہی کم ہو جایا کرتا ہے ‘ اور صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ لوگ ان دریائوں میں جگہ جگہ خشک زمین اور کہیں کہیں معمولی پانی کے نیچے پتھر تک دیکھ سکتے ہیں اور تازہ مچھلی ناپید ہو جاتی ہے تو محولہ جھگیوں میں پھر بھی مچھلی ملتی ہے جو بڑے بڑے دریائوں سے مچھیرے جال میں پھنسا کر سپلائی کرتے ہیں بلکہ ان دنوں کراچی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے لائی جاتی ہے اور محفوظ رکھنے کی خاطر ڈیپ فریزر میں محفوظ کرکے رکھی جاتی ہے ‘ اور اب تو کچھ عرصہ سے ملک بھر میں مچھلی فارموں میں ان کی پرداخت کی جاتی ہے یوں مچھلی کی سپلائی متاثر نہیں ہوتی ‘ اس لئے وہ جو لطیفے میں مدتوں پہلے دیا جانا والا مشورہ تھا یعنی سائن بورڈ پر سے لفظ تازہ حذف کرنے کا ‘ تو ان جھگی ہوٹلوں میں ملنے والی مچھلی پربھی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ‘ یعنی بقول سجاد بابر مرحوم
میں درد کے قصے میں بہت دیر سے پہنچا
بک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے
مچھلیوں کے کھانے کے حوالے سے ایک روایت مدتوں(ممکنہ طور پر صدیوں) سے چلی آرہی ہے کہ خاصیت کے حوالے سے چونکہ یہ گرم ہوتی ہے اس لئے صرف ان مہینوں میں استعمال کرنی چاہئے جن میں حرف”ر” (درے) آتا ہو ‘ یعنی جنوری ‘فروری ‘ مارچ ‘ اپریل ‘ ستمبر ‘ اکتوبر ‘ نومبر اور دسمبر باقی کے مہینوں یعنی مئی ‘ جون ‘ جولائی اور اگست میں مچھلی کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے ‘ لیکن سیانے لوگ اس کا ایک اور کارن بھی بتاتے ہیں کہ دراصل مئی سے اگست کے مہینوں میں مچھلیوں کی نسل بڑھتی ہے اور مادہ مچھلیاں انڈے دیتی ہیں اور بچوں کی پرداخت کرتی ہیں اس لئے ان مہینوں میں مچھلیاں پکڑنے اور کھانے سے احتراز کرنا چاہئے ۔ بہرحال اب یہ ساری باتیں فرسودہ لگنے لگی ہیں اور ہر سیزن میں مچھلیاں لوگ ذوق وشوق سے کھاتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اصل مسئلے کی جانب واپس چلتے ہیں یعنی دریائے کابل اور ناگمان کے کنارے قائم جھگی نما ہوٹلوں کے خلاف انتظامیہ نے چھاپے مار کر انہیں مسمار کردیا ہے حالانکہ جیسا کہ کالم کے آغاز میں گزارش کی تھی کہ عوام کو تفریح کے مواقع فراہم کرنے کے لئے چند برس پہلے خود صوبائی حکومت نے ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا جس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ‘ حالانکہ اسی منصوبے کے پیش نظر ان دریائوں میں
چلنے والی کشتیوں کے مالکان نے اپنی کشتیوں کورنگ و روغن کرکے خوبصورتی کا مرقع کر دیا ہے اور عرصہ پہلے چپوئوں کی مدد سے چلنے والی ان کشتیوں میں اب موٹریں نصب کرکے پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والے جنریٹروں کی مدد سے فیری بوٹس میں تبدیل کردیا ہے ‘ اصولی طورپر حکومت نے جو منصوبہ بنایا تھا اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا’ مگر اچانک ان جھگی ہوٹلوں کومسمار کرنے کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں ‘ ایک وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ عوام کی ان ”تفریح گاہوں” سے لطف اندوز ہونے کی وجہ سے ان مقامات پر گاڑیاں بڑی تعداد میں آنے جانے اور وہاں کھڑی رہنے کی وجہ سے ٹریفک میں شاید خلل پیدا ہوتا ہو ‘ تاہم اس پر تو قابوپانے کے لئے مناسب اقدام کئے جا سکتے ہیں تاہم شنید یہ بھی ہے کہ ان ہوٹلوں کی وجہ سے مچھلیوں اور مرغیوں(مرغ کڑاہی بھی ملتی تھی) کی باقیات اور فضلات وغیرہ کو انگریزی محاورے ”ایزیکم ‘ ایزی گو” کے مطابق یہ ہوٹلوں والے ان دریائوں میں ڈال دیتے تھے جس کی وجہ سے ان دریائوں کا پانی گدلا اور آلودہ ہوتا تھا ‘ اگر ایسا تھا تو ہوٹل والوں کو اس سے روکا جا سکتا تھا اور بڑے بڑے کنٹینر رکھ کر یہ باقیات ان میں ڈالنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا جیسے ہر روز میونسپل ادارے وہاں سے اپنی گاڑیوں میں اٹھا کر مناسب جگہ ٹھکانے لگا سکتے تھے ‘ جبکہ اس کے باوجود اگر کوئی ہوٹل ان ہدایات پرعمل نہ کرتا تو اسے بھاری جرمانہ کرکے احتیاط کرنے پرآمادہ کیا جا سکتا تھا ‘ تاہم عوام کو دستیاب تفریح کے مواقع ختم کرنے کی یہ سوچ یقینا درست سوچ نہیں ہے’ جبکہ اس اقدام سے جہاں عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے وہاں سینکڑوں خاندانوں کا روزگار متاثر ہوا ہے کہ ان ہوٹلوں کے ساتھ وابستہ درجنوں ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں اور دیگر اشیاء کا سپلائی چین بھی متاثر ہوا ہے ۔ اگر یہ سوچ حکام کی نگاہ میں درست ہے تو پھر نوشہرہ کے نزدیک جو بہت بڑے بڑے ہوٹل ہر روز لاکھوں بلکہ مجموعی طور پر کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں ان کے حوالے سے بھی ایسی ہی پالیسی کیوں اختیار نہیں کی جارہی ہے ‘ معاف کیجئے گا ہم یہ نہیں کہتے کہ ان ہوٹلوں کوبھی بند کیا جائے ‘ ہر گز نہیں تاہم پالیسی سب کے لئے یکساں ہونی چاہئے اور چارسدہ روڈ کے ان چھوٹے ہوٹلوں کو بھی ضابطے کا پابند کرکے ان کو حلال رزق کمانے کا حق دیا جائے ۔
مرہم نہ بن سکے گی کبھی معذرت تیری
دل توڑنے سے پہلے ذرا سوچنا تو تھا

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام