2 150

اندھے سوداگر

ہر روز اخبار دیکھتے ہوئے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ آج کرونا کے حوالے سے خبریں کم سے کم ہوں مگر یہ دیکھ کر دل افسردہ ہوجاتا ہے کہ اخبار کے صفحات پر کرونا ہی کرونا ہوتا ہے، رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، پہلے ہم اس مقدس مہینے کے استقبال میں کالم لکھا کرتے تھے، آج ہم رمضان المبارک کا تذکرہ بھی کرونا کے ذکر کے بغیر نہیں کرسکتے۔ بروزہفتہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی زیرصدارت ایوان صدر اسلام آباد میں علماء ومشائخ کانفرس میں رمضان المبارک اور کرونا کی وبا کے حوالے سے علمائے کرام کی مشاورت اور تجاویز کے بعد ماہ رمضان میں مساجد میں فرض نماز اور نمازتراویح کی ادائیگی کیلئے حکومت اور طبی ماہرین کی جانب سے طے کردہ احتیاطی تدابیر پر مکمل طور پر عمل کرنے پر اتفاق کیا گیا اور نماز تراویح کی مشروط اجازت دی گئی! یہ اچھی بات ہے موجودہ حالات میں یہی کچھ کیا جاسکتا ہے، اس سارے عمل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر پر من وعن عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتنا شعور دے کہ ہم اپنا نفع نقصان پہچان سکیں، آپ نے لاک ڈاؤن کے دوران خاندان کے سربراہ کو اپنی شریک حیات اور پانچ عدد بچوں کیساتھ موٹر سائیکل پر سوار ضرور دیکھا ہوگا جب پوچھا گیا کہ جناب یہ کیا حرکت ہے کہاں کا ارادہ ہے؟ تو موصوف کہنے لگے ساس کی طبیعت ناساز ہے اس کی احوال پرسی کیلئے جارہے ہیں، یوں کہئے ساس کی احوال پرسی کیلئے اپنے پورے خاندان کی زندگی کو داؤ پر لگایا جارہا ہے، شاید اندھا سوداگر اسی کو کہتے ہیں؟ اندھے سوداگر پر یاد آیا جب ہم نے درس وتدریس کے شعبے کو اختیار کیا تو ایک دن استاد محترم خالد میاں عزمی مرحوم ومغفور سے سرراہ ملاقات ہوگئی، ہم سے احوال پوچھا تو ہم نے انہیں اپنی نئی ذمہ دایوں کے حوالے سے آگاہ کیا، وہ بڑے خوش ہوئے ہمیں مبارکباد دی پھر کہنے لگے اب تمہارا واسطہ اندھے سوداگروں سے پڑے گا، ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا۔ حقیقت ہے ان کی بات ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آئی، اس لئے ہم نے ان سے اندھے سوداگر کے معنی پوچھنے کی جسارت کی تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ طالبعلم عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جب انہیں اپنے نفع نقصان کی سمجھ نہیں ہوتی، یہ بہت سی چیزوں کو اپنے لئے اچھا سمجھتے ہیں لیکن وہ ان کیلئے باعث نقصان ہوتی ہیں، بس آپ نے ان کا خیال رکھنا ہے، مشنری جذبے سے پڑھانا ہے۔ آج بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال ہے، ہماری احتیاط میں ہمارا ہی فائدہ ہے، ہمارے بیوی بچوں کا فائدہ ہے لیکن ہم زبردست قسم کی بے احتیاطی کا ارتکاب کررہے ہیں! رمضان المبارک میں مساجد کے حوالے سے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں، مساجد میں قالین اور دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی، اگر مسجد کا فرش ناپختہ یعنی مٹی کا ہو تو اس پر چٹائی بچھائی جاسکتی ہے، بہتر یہی ہے کہ لوگ گھر سے اپنی جائے نماز ساتھ لائیں اور اس پر کھڑے ہوکر نماز پڑھیں، نماز سے پہلے اور نماز کے بعد مجمع لگانے سے پرہیز کیا جائے، جن مساجد میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں ہی نماز پڑھی جائے، پچاس برس سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مسجد تشریف نہ لائیں، مسجد کے فرش کو صاف کرنے کیلئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر اس سے صحن کو دھویا جائے، اسی محلول کو استعمال کرکے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کیا جائے، صف بندی کا اہتمام اس طرح کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رہے، ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنائے (ہمارا نہیں خیال کہ لوگ چھ فٹ کے فاصلے والی ہدایت پر عمل کرسکیں گے، مساجد میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوگا) گھر سے وضو کرکے مسجد تشریف لائیں، گھر آکر سب سے پہلے صابن سے بیس سیکنڈ تک ہاتھ ضرور دھونے ہیں، لازم ہے کہ گھر سے ماسک پہن کر مسجد تشریف لائیں اور کسی سے ہاتھ نہ ملائیں، موجودہ صورتحال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے، کسی بھی مسجد میں افطار اور سحری کا انتظام نہ کیا جائے (امام صاحبان اس سے مستثنیٰ ہیں) آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطے میں رہیں اور بھرپور تعاون کریں۔ مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کیساتھ مشروط اجازت دی جارہی ہے۔ اگر رمضان کے اس مقدس مہینے میں حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کرے گی اور اس بات کا بھی حکومت کو مکمل طور پر اختیار حاصل ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کیلئے پالیسی اور احکامات بدل دے! لاک ڈاؤن میں ہلکی سی نرمی کے بعد بازاروں، گلیوں کوچوں میں لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا شاید ہمارے لئے اپنے روایتی روئیے کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہے! ہماری یہ دعا ہے کہ لوگ اوپر درج کی گئی احتیاطی تدابیر پر ضرور عمل کریں، اگرہماری بے احتیاطی سے خدانخواستہ صورتحال بگڑتی ہے تو اس میں صرف اور صرف ہمارا اپنا نقصان ہے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار