وزیراعظم مشکل میں

یہ بہرطور نہیں کہا جاسکتا کہ ہرطرف امن و شانتی ہے مسئلہ کوئی نہیں مسئلہ نہیں مسائل ہیں اور وہ بھی بہت گھمبیر ‘ یہ حل کیسے اور کب ہوں گے ہوں گے بھی یا نہیں یہ بذات خود ایک سوال ہے اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ جس بھیانک موڑ پر پچھلی حکومت نے لاپھینکا یہاں سے اٹھنا تو ہے مگر کیسے ؟ دوسرا یہ کہ اگر یہ صورتحال معلوم تھی تو اصلاح احوال کا ایجنڈا پہلے تیار کر لیا جانا چاہئے تھا تیسری بات یہ ہے کہ وزراء اور مشیروں کو شوق بیان بازی سے پرہیز کرنا ہوگا فقیر راحموں کہتے ہیں اگر بیان ہی نہیں دینے تو وزیر مشیر کاہے کو بنے ۔ ایک تو یہ فقیر راحموں بڑا مسئلہ ہے سمجھ میں نہیں آتا موصوف کب کس طرف کلٹی مار جائیں ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں فقیر راحموں کس کے ساتھ ہے یہ جاننا ہوتو پیپلز پارٹی اور اے این پی جمع قوم پرستوں کے خلاف بات کرکے دیکھ لو لگ پتہ جائے گا خیر چھوڑیئے کچھ نئی تازہ باتیں کرتے ہیں اب دیکھیں نا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم اور نون لیگ کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف مسلم لیگ (ن)کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے لندن میں بلائے( طلب)گئے پارٹی کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لئے اپنی کابینہ کے اہم لیگی وزراء کے ہمراہ لندن پہنچ چکے ہیں ان کی لندن روانگی پر سابق وزیراعظم عمران خان کا یہ اعتراض بہرطور درست ہے کہ وزیراعظم اپنی کابینہ کے چند اہم وزرا کے ساتھ اس شخص کے لندن میں اجلاس میں شرکت کے لئے گئے جو علاج کے لئے بیرون ملک گیا تھا اور وہ عدالت کی دی گئی مدت کے ختم ہونے کے باوجود ملک سے باہر مقیم ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ سابق وزیراعظم کو ہوئی سزائوں پر اپیل کے معاملات ابھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں وہ ایک مخصوص مدت کے لئے اپنے بھائی (موجودہ وزیراعظم)کی تحریری ضمانت پر علاج کے لئے بیرون ملک گئے تھے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ صحت یاب ہوں گے تو واپس آئیں گے دوسری طرف مقررہ عدالتی مدت ختم ہونے کے بعد ان کے قیام لندن پر سابق حکمران جماعت اپنے دور میں یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ انہوں نے نہ تو عدالتی حکم کی پاسداری کی اور نہ ہی اپنے علاج معالجے کے حوالے سے طبی رپورٹس بروقت پنجاب حکومت کو فراہم کیں۔ جواباً نون لیگ والے ہمیں بتاتے رہے کہ وہ نہ صرف شدید بیمار ہیں بلکہ سفر کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں’ہماری دانست میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اہم ارکان کو اصولی طور پر لندن اجلاس میں شرکت کے لئے نہیں جانا چاہیے تھا اپنے بھائی جوکہ پارٹی کے اصل سربراہ ہیں’ کے بلائے جانے پر ان کی روانگی اور اجلاس میں شرکت سے جہاں سیاسی تنازع اٹھ کھڑا ہوگا وہیں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اہم لیگی وزراء ایک ایسی شخصیت کے طلب کردہ مشاورتی اجلاس میں شرکت کے لئے کیوں گئے جس کو ہوئی سزائوں کے خلاف اپیلیں ابھی عدالت میں زیرسماعت ہیں؟ اسحق ڈار کے معاملات بھی پاکستانی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ کیا نون لیگ کی قیادت یہ نہیں جانتی سمجھتی کہ خاندانی رشتوں اور سیاسی نظم و نسق سے اہم ملکی قانون ہے ؟۔ گزشتہ دونوں واقعات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن)کی قیادت ناقدین کو تسلی بخش جواب نہیں دے پائی اب وزیراعظم کا اہم لیگی وزراء کے ہمراہ لندن جانے سے بدمزگی تو بہرطور پیدا ہوئی ہے۔ محض یہ کہہ کر تسلی نہیں دی جاسکتی کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنے اور سزائوں کا تعلق بھی سیاسی انتقام سے ہے۔ نوازشریف باقاعدہ طور پر وکلا کے ذریعے عدالتی عمل میں شامل رہے انہوں نے اپنی سزائوں کے خلاف اپیلیں بھی کیں۔ یہاں ایک اہم بات یاد رکھنا ہوگی وہ یہ کہ پانامہ کے معاملے میں آبیل مجھے مار کا شوق بھی نوازشریف کو ہی چرایا تھا ‘ اسی طرح کا معاملہ اسحق ڈار کے حوالے سے ہے انہوں نے پنجاب سے (ن)لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہونے کے باوجود وطن واپس آکر حلف اٹھانے سے گریز کیا ان کا موقف رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے اس لئے وہ وطن واپس نہیں آرہے۔ ہماری رائے بہر حال یہی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو مسلم لیگ(ن)کے لندن میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اب ان کی لندن روانگی اور نوازشریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں شرکت پر اگر ان کے سیاسی مخالفین اعتراضات اٹھارہے ہیں یا ان مقدمات کا حوالہ دیں جن میں نوازشریف اور اسحق ڈار مطلوب ہیں تو ان اعتراضات کا تسلی بخش اور قانونی نکات کی بنیاد پر جواب دیا جانا ضروری ہے۔ بہرطور اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ وزیراعظم کا اپنی کابینہ کے اہم لیگی وزراء کے ہمراہ میاں نوازشریف کے طلب کرنے پر لندن جانا کسی بھی طرح درست نہیں اس سے نہ صرف یہ تاثر پیدا ہوگا کہ کہ حکومتی قیادت کے نزدیک عدالتوں میں زیرسماعت معاملات کی کوئی اہمیت نہیں ثانیاً یہ کہ وزیراعظم اپنے بڑے بھائی کے علاج کے لئے بیرون ملک روانگی اور علاج اور مقررہ مدت میں وطن واپسی کے تحریری ضامن ہیں اور یہ ضمانت انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں دی تھی۔ موجودہ صورتحال میں اگر یہ دریافت کیا جائے کہ نوازشریف وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کیوں نہیں کرتے تو یہ غلط سوال ہوگا نہ اس سے ان کی تضحیک مقصود ہوگی۔ اصولوں اور قاعدے قانون سے محروم پاکستانی سیاست اور نظام میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہی ہے کہ ایک وزیراعظم اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ اس شخص کے طلب کرنے پر لندن روانہ ہوگیا جو بیرون ملک علاج کے لئے دی گئی عدالتی اجازت کا وقت ختم ہونے کے باوجود وطن واپسی سے گریزاں ہے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم اپنے ہی اس عمل کی وضاحت کریں گے اور عوام کو یہ ضرور بتائیں گے کہ ملکی قانون اور نظام اہم ہے یا ان کے بڑے بھائی کا لندن میں طلب کردہ اجلاس اہم تھا؟ ہمزاد فقیر راحموں کے بقول بہت ضروری تھا تو بھی وزیراعظم کو کم از کم لندن نہیں جانا چاہئے تھا وہ کسی اور موقع پر لندن جاکر اپنے بڑے بھائی کی قدم بوسی کرلیتے تاکہ ناقدین کو تنقید کے نشتر چلانے کا موقع نہ ملتا خیر اب دیکھتے ہیں کہ لندن اجلاس کے پٹارے سے کیا برآمد ہوتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان سے جاتی امرا نیوز اور سوشل میڈیا سیل کے دعوئوں پر پانی پھر گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی