سیاسی مقدمات سے گریز کی ضرورت

تحریک انصاف کا حکومت کیخلاف لانگ مارچ بظاہر ختم ہو گیا ہے مگر ہر دو جانب کی قیادت کے خلاف سیاسی مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں جس سے سیاسی کشیدگی نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے عمران خان، اسد عمر، شاہ محمود قریشی سمیت دیگر رہنمائوں پر مقدمات درج کئے گئے ہیں تو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے جواباً وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پر مقدمہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، وزیر اعلیٰ محمود خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آزادی مارچ میں ہمارے کارکنان پر بدترین تشدد کیا گیا ہے جس کا ہر صورت بدلہ لیا جائے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر جماعت کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے مگر اسے بدلہ لینے سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے اس طرح کی سوچ سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو وفاق اور صوبے کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کر دے گا یہ صورتحال تشویشناک ہے اس وقت تحریک انصاف وفاقی سطح پر اقتدار سے باہر ہے مگر صوبائی سطح پر اس کی حکومت ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے معاملات اور تحریک انصاف کے پارٹی سطح کے معاملات کو الگ الگ رکھا جائے تاکہ مخاصمت میں پڑ کر صوبے کے عوام کا نقصان نہ ہو اسی طرح وفاق کو بھی ایسی مزاحمت سے گریز کرنا چاہئے جو خیبرپختونخوا کے عوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن جائے یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب ہر جماعت اپنے آپ کو قانون کے تابع رکھ کر مقدمات بنائے گی۔
بجلی شارٹ فال لوڈشیڈنگ کا باعث
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے سال 2018ء سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، بلاشبہ اس وقت پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر تھی، مگر اس کے تین سال بعد ہی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں کئی کئی گھنٹے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، شدید گرمی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ شہریوں کے لئے عذاب سے کم نہیں ہے، پاور ڈویژن کے مطابق اس وقت 5 ہزار 780 میگاواٹ کا شارٹ فال ہے، بجلی کی مجموعی پیداوار 18 ہزار 720 میگاواٹ اور طلب 24 ہزار 500 میگاواٹ ہے، جس کے باعث ملک کے مختلف علاقوں میں 8 سے12 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے، لوڈ شیڈنگ صرف گرمی کی وجہ سے ہی شہریوں کے لئے پریشانی کا باعث نہیں بلکہ اس سے لوگوں کے کاروبار بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں، بالخصوص چھوٹے کاروبار سے وابستہ لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ محض تین سالوں میں ملک میں بجلی کا بحران کیسے پیدا ہوگیا، اگر پاور سٹیشن کی مرمت نہیں کروائی گئی تو اس کی وجوہات کیا تھیں، اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے پاورسٹیشن ناکارہ کیوں پڑے ہیں؟ ان عوامل کا جائزہ لے کر قابل عمل حل نکالنا موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ عوام کو لوڈشیڈنگ کی مشکلات سے بچایا جا سکے، چونکہ جون، جولائی اور اگست شدید گرمی کے مہینے ہیں، اگر لوڈشیدنگ کے مسئلے کے حل کے لئے بروقت اقدامات نہیں کئے گئے تو خدشہ ہے کہ آنے والے شدید گرمی کے مہینوں میں صورت حال اس سے بھی بدتر ہو جائے، شہریوں کو یہ شکوہ بھی ہے کہ ایک تو انہیں بجلی ملتی نہیں دوسرا ان سے بھاری بل بھی وصول کئے جاتے ہیں، دیکھا جائے تو ان کا یہ شکوہ بجا ہے، اگر حکومت بجلی کے بلوں کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی تو عوام کا بھی حق ہے کہ انہیں یہ سہولت بلاتعطل فراہم کی جائے۔
قومی اداروں کو سیاست سے دور رکھیں
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ عوام کو قتل و غارت گری اور خون خرابے سے بچانے کے لئے لانگ مارچ کو ختم کیا ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے، ایک قومی لیڈر کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ قومی مفاد کو سیاست سے مقدم رکھے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ ملک بچانے کا ٹھیکہ صرف ہم نے نہیں لیا، ادارے بھی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ہر ادارے کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے، کوئی بھی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا جائے گا، اس ضمن میں دیکھا جائے تو عمران خان کا اداروں سے شکوہ بے جا ہے۔ بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان کو قومی اداروں سے متوقع حمایت حاصل نہ ہونے کا شکوہ ہے جس کا وہ اشاروں کنایوں میں اظہار کر رہے ہیں۔ جب اہل سیاست خود ہی اداروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو ادارے قطعی طور پر اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کر پائیں گے، سو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قومی اداروں کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدانوں کی یہ روش رہی ہے کہ وہ سیاسی جنگ سیاسی میدان میں لڑنے کی بجائے غیر متعلقہ فورمز کا استعمال کرتے رہتے ہیں، بالخصوص اداروں کے پیچھے چھپ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ادارے بلاوجہ متنازع ہو جاتے ہیں اور ان کی ساکھ پر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، سیاست دانوں کی یہ روش اداروں کی مضبوطی کی بجائے انہیں کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے جو کسی بھی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں ہے، سیاسی چپقلشوں میں ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، ایسے طرز عمل سے گریز کرنا چاہیے جس سے عوام کے اندر اداروں کی ساکھ متاثر ہو اور ادارے کمزور ہوں، اہل سیاست کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جب ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہوگا اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ