تم آئے تو آیا مجھے یاد

بالآخر اللہ نے خیبرپختونخوا کی بھی سن لی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بوجہ خیبر پختونخوا میں موجود ہیں۔ نو سال ان کی جماعت کو یہاں اقتدار کا تاریخی موقعہ ملا۔ ہماری روزاول سے التجا رہی کہ عمران خان یہاں وقت گزاریں دیکھیں کہ ان کی ٹیم کیا کر رہی ہے۔ نوسال کا طویل عرصہ انہوں نے بنی گالہ سے پختونخوا کو چلایا اب خود یہاں موجود ہیں تو دیکھیں کہ ان نو سالوں میں ان کی جماعت نے کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔ لیکن ٹھریئے جناب، براہ مہربانی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن اور پروموشنل ویڈیوز کے جھانسے میں بالکل نہیں آئیں۔ لیکن یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ آپ نے پہلے کسی کی مانی ہے کہ اب مانیں گے۔ سیاسی ایشوز سے ہٹ کر ہسپتالوں کی حالت زار کا پتا کریں۔ وزیراعلیٰ اور وزیر صحت سے ضرور پوچھئے گا کہ اگر میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس(ایم ٹی آئی)اتنا انقلابی نظام ہے تو پھر یہ وزیراعلیٰ کے علاقہ میں واقع سیدو ٹیچنگ ہسپتال میں اب تک کیوں لاگو نہ ہو سکا ؟ اور تو اور اب تو سنا ہے کہ ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں بھی یہ قانون لاگو کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی معلوم کریں کہ ایک کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں؟ عدالتی حکم امتناعی تو موجود ہے لیکن بی آر ٹی اور بلین ٹریز سونامی سکینڈل کیوں نمودار ہوئے؟ وزرا کی آپس کی چپقلش سے صوبہ کیوں برباد ہوا؟ صوبے میں دہشت گردی کی بلا دوبارہ کیوں منڈلانے لگی ہے؟ یہ پوچھا جائے کہ صوبے میں روزگار کے کتنے مواقع پیدا کئے گئے؟ صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال لیڈی ریڈنگ کیوں ویران ہوا؟ ضم شدہ اضلاع کا بجٹ کہاں گیا؟۔
جناب جامعات کی یہ حالت ہے کہ ایک طرف فنڈز نہیں ہیں دوسری ایک سرکاری یونیورسٹی نے ہائی کورٹ کے حکم پر جب صرف45ملازمین کی جانچ پڑتال کی تو سارے بوگس نکلے۔ کسی نے ٹیسٹ نہیں دیا تو کسی نے انٹرویو کوئی سرے سے اہل ہی نہیں تھا تو کوئی زائدالعمر تھا۔ اکثریت کو ملازمتیں بغیر اشتہار کے دی گئیں۔ ایک بزرگ کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی گویا جب زندگی اسے الوداع کہنے کے لئے پر تول رہی تھی عین اس وقت یونیورسٹی نے اسے گلے لگا کر نوکری سے نوازا۔کمال کی بات یہ کہ ان45ملازمین نے ملازمتوں کی مستقلی کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ امید ہے اگر سرکار کی یہ حالت رہی تو ان بے چارے ملازمین کو مستقل نوکری سے نوازا جائے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کس طرح پٹواری اپنے حلقے حاصل کرتے ہیں۔ پٹوارخانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو ٹھیک کرنے کے لیئے آپ کو ووٹ دیا گیا تھا۔ وہ نظام مزید ابتر ہوگیا ہے۔ کسی روز ذرا کچہری کا چکر لگائیں تو معلوم ہو۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں جو کچھ ہوا اس کے بعد آپ کے پاس خیبرپختونخوا کی شکل میں ایک موقعہ ہے۔ نو سال کے بعد اب اس صوبے میں آپ کی حکمرانی کا آخری بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے۔ آپ چونکہ صوبے میں موجود ہیں اس لئے وزیراعلیٰ کو خدارا کام کرنے دیجئے۔ اس کی مدد کیجئے کہ وہ مرکز سے صوبے کے لئے زیادہ سے زیادہ منصوبے حاصل کرے۔ چونکہ صوبائی بجٹ کا اچھا خاصہ حصہ وفاق سے ملتا ہے تو اس لئے خیبرپختونخوا کے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔ گورننس کے جو مسائل ہیں اس کو فی الفور حل کریں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ حکمرانی کے تجربات کا آغاز ہی آپ نے اس صوبے سے کیا تھا۔ کاش اس وقت آپ سنتے اور سیکھ لیتے تو پنجاب اور مرکز میں کم ازکم گورننس کے معاملہ میں آپ کو ہزیمت کا سامنا کرنا نہ پڑتا۔
بیوروکریسی کولگام ڈالئے کیونکہ بیوروکریسی ہی وہ ان دیکھا ہاتھی ہے کہ جو کمرے میں سب سے بڑا ہوتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آتا۔ صوبے کی جو حالت ہے اس میں سب سے اہم کردار اسی بیوروکریسی کا ہے۔ جس طریقہ سے بیوروکریسی نے ان نو سالوں میں صوبے کی انتظامی شکل کو بگاڑا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تخلیہ میں یہ آپ کی حکومت کا جو منظرنامہ بیان کرتے ہیں کاش وہ آپ سنتے۔ انہوں نے انگریز سرکار کے دور سے تعریف کا ہتھیار سنبھال کر رکھا ہے وہ پوری طرح سے پختونخوا میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف آزمایا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی تنخواہوں اور شاہانہ اخراجات کے ساتھ پختونخوا کی یہ بیوروکریسی صوبے کو بربادی کے راستے پر دھکا دے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ کسی بھی بیوروکریٹ کو بلا کر پوچھئے کہ اس کے پاس محکمہ کی پالیسی اور مستقبل کا ویجن کیا ہے؟ اب تک عوام کو انہوں نے کیا دیا ہے؟ اس کے نتائج کیا نکلے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ یقین مانئے اکثریت تو یہی کہیں گے کہ ابھی چند ماہ پہلے ہی اس نے محکمہ کا چارج سنبھالا ہے۔اگر آپ کرنے پر آئے تو اس آخری سال میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ کو مرکز میں چار سال ملے۔ پختون حکمران شیرشاہ بابا نے چار سالوں میں کلکتہ سے پشاور تک جی ٹی روڈ بنائی، اس کے دونوں اطراف میں ہندو مسلم ہوٹل وسرائے بنائے’ ڈاک کا نظام وضع کیا’ سکہ کی حیثیت قائم کی’اس کے علاوہ اور بہت کچھ کیا۔ اس موضوع پر یہاں بہت کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے لیکن وہ پھر کبھی سہی۔ صرف یہی نہیں اس دوران وہ مسلسل علاقے بھی فتح کرتے رہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ آپ کو کام نہیں کرنے دیا گیا یا آپ کو صرف چند سال حکومت کرنے کا موقعہ ملا۔ دیکھا جائے تو کم ازکم خیبرپختونخوا میں تو اب بھی آپ کی حکومت ہے۔ پوری کی پوری کابینہ موجود ہے۔ آپ کے پاس اب وفاقی حکومت کا تجربہ بھی ہے۔ آواز میں طاقت ہے اگر آپ صوبے کے لیئے کچھ مانگیں گے تو آپ کو ملے گا۔ اگر نہیں ملے گا تب بھی آپ کو ایک معقول جواز ملے گا عوامی تحریک چلانے کا کہ مرکز میں موجود حکمران پختونخوا کے عوام کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ وفاقی اکائی کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اس وقت آپ جہاں موجود ہیں اس سے ستر کلومیٹر کے فاصلہ پر امریکی اتحادی افواج کا انخلا ہونے کے بعد ایک عالمی انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ آپ عالمی سطح پر اس کے لیئے آواز اٹھا سکتے ہیں اور اس مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس وقت بھی آپ ہی کے صوبے کے عمائدین کابل میں امن کے قیام کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید آپ کو اس میں کچھ خاص دلچسپی نہ ہو لیکن یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ سب سے آخر میں یہ بات کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آپ کو صوبے میں کئی معاملات میں آزادی حاصل ہے۔ یہ آزادی کافی جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی ہے۔ اس کا بھرپور استعمال کریں۔ آپ ادارے قائم کرسکتے ہیں اس لئے ادارے قائم کریں، قانون سازی کریں، وسائل کی تقسیم کا مسئلہ اٹھائیں۔ اس سلسلہ میں آپ کی اپنی بیوروکریسی آپ کو طرح طرح کے مسائل سے ڈرائے گی اور روڑے اٹکائے گی لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہی بیوروکریسی حل کا نہیں مسئلہ کا حصہ ہے اس لئے ان سے گزر جایئے گا اور گزر جایئے گا۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے