ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے

ہندوستان میں جب کلا سیکل فلموں کا دور تھا تب بہت ساری یادگار فلمیں بنی تھیں اس میں آج کے دور کی طرح نہ تو ناچ مٹکا بے ڈھنگ ہوا کرتا تھا نہ نہ تان تنبورہ بے سرا اور کان پھاڑ دینے والا ہوتا گلے کی سرکانوں میں رس گھولنے والی ہوا کرتی تھی اور سب لوازما ت دائرہ سر وتال و آہنگ میں ہوا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس دور کے گانے بھی آج تک زندہ وجاوید ہیں ان کو گنگنانے کوجی کر تا ہے غالباً 1944ء میں رتن نام سے ایک فلم بنی تھی جس کا ایک گانا جو کرن دیوان اور زہرہ بائی انبالوی نے گایا تھا آج بھی سرورجان ہیں اس گیت کا مکھڑا تھا کہ ،
ساون کے بادلو ان سے یہ جا کہو
تقدیر میں یہ ہی تھا، ساجن میر ے نہ رو
اسی گیت کے بولوں میں یہ بول بھی شامل تھاکہ
چھڑوں نہ ہمیں یہاں آکے برسوں کہیں اور جاکے
گزشتہ تین دن کے دوران برسات نے جو برسنا دکھایا ہے اللہ امان غیریبوں پر کیا بیتی یہ غریب ہی جانتا ہے، برسات کے بارے میں شاعر حضرات نے خوب طبع آزمائی کی ہے جانے ان کو بر سات میں ایسے کون سے گن ملے کہ بہار سے تو مطالبہ پھول برسانے کا کرتے ہیں اور برسات کی شان میں رطب قصیدہ خوانی میں لگے رہتے ہیں سبھی جانتے ہیں کہ بہار کا مو سم ہر سو خوش گوار طبعیت کو گل گلزار کرنے کا موسم ہوتا ہے جس طرف رخ کرو محبو ب کی خوشبو آئے نہ آئے گل و رنگ کی خوشبوئیں مہکتی ہیں، جب کہ برسات میں نالیا ں ندی بن جا تی ہیں گٹر کا سڑانڈ زدہ پانی بن بلا ئے مہمان کی طرح غریبوں کی جھونپڑیو ں میں جا گھستا ہے متعدی بیماریوں کا راج ہو جاتا ہے، تپ مرقہ، تپ دق، ہیضہ اور نہ جا نے کون کون سی جان لیوا بیماریا ں ہاتھ پیر پھیلائے انسانوں کو چمٹ جاتی ہیں شاعر حضرات ایسے موسم میں بھی مزے لیتے ہیں، سمجھ نہ آتی کہ ان کو برسات میں کیسی مدہوشی سوار ہو جاتی ہے کہ ساون میں ان کو سب ہرا ہی ہرا نظر آتاہے۔اور پھر زہرہ بائی انبالوی کی طرح یہ ہی الاپتے ہیں کہ
رم جھم رم جھم برسیں بدروا
مست ہوائیں آئیں
پیا پیا گھر آجا، آجا، پیا گھر آجا
اب بھلا بتاؤ ایسی بے موسمی برسات میں پیا گھر آجائے تو کیا بھگتے گا ، خیر اسے چھو ڑیئے امیر خسرو کی برسوں پرانی پہیلیاں جا کے دور میں تروتازہ ہیں ان کی پہلیاں نظم میں ہو تی تھیں، ایک پہیلی ہے کہ
ساون بھادوںبہت چلی۔ ماہ پوس تھو ڑی امیر خسرو یو ں کہیں یہ پہلی موری، وہ ذومعنی الفا ظ استعمال کر کے چکرا دیا کرتے تھے یہا ں بھی انہوں نے لفظ موری کو ذومعنی استعمال کیا ہے۔ بہر حال اب تو حالات یہ ہوچلے ہیںکہ ندی نالے ساون، بھادوں میںخوب چلیں نہ چلیں بن موسم چل پڑتے ہیں گویا موسم نہ ہوئے کوئی لاٹ صاحب ہیں جو جی میں آئے کرتے ہیں اسی لیے تو محاورہ پیدا ہوا بن بادل برسات پاکستان میںتین روز سے جو مو سم کی صورت حال دیکھنے میں آئی وہ بن بادل برسات کے محاورے کے مصداق ہی تھی، چلوشدید گرمی میں آسمان سے پانی کا برسنا نعمت ہے مگر اس قدر کے وہ زحمت بن جائے اللہ سے اپنے گناہو ں کی معافی ما نگنے کی یاد دلاتا ہے، اور تو اور اس ہاڑ کے مہینے میں جو شدید ترین گرم ہوتا ہے اس میں پاکستان کے شمالی پہاڑوں پر برفباری کا ہونا کمال قدرت تو ہے مگر سائنسدان اس کو موسم کی تبدیلی قرار دے کر علمیت بھگار رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران ہو نے والی یہی غیر معمولی برفباری جہا ں تعجب خیز ہے وہا ں سی حوںکو اپنی طرف کھینچ رہی ہے آزادکشمیر، گلگت بلتستان میںجون کے مہینے میں ہو نے والی برفباری نے لو گو ں کو حیران وپریشان کردیا ہے اور ساتھ ہی خوشگوار حیرت میں بھی مبتلا کر دیا ہے اس بارے میں محکمہ موسمیات کے ایک سابق ڈائر یکٹر جنرل قمر الزمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمی تبدیلی میں شدید صورتحا ل کی بناء پر ایسا ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان اس وقت شدید موسمی تبدیلیو ں کی زد میں ہے، ظاہر ہے کہ وہ ماہر موسمیات ہے ان کے آگے کیا بولا جا سکتا ہے ، شاعروں کے آگے کچھ نہیں کہا جا سکتا تو استاذ الاستاذکے سامنے تو گھٹنے ٹیکنے کے سوا رکھا ہی کیا ہے، بہر حال محمکہ موسمیات کی اطلاعات ہمیشہ کی طر ح غیر یقینی رہی ہیں اس مر تبہ بھی غیر یقینی ہی ثابت ہوئیں۔ تاہم اب محمکہ موسمیات کے ایک ترجمان ڈاکٹر ظہیر بابر نے کہا ہے کہ پا کستان کے شمالی علا قہ جا ت کے بلند و بالا پہاڑوں پر بارش نہیں ہواکرتی موسم گرم ہو یا سرد ہو وہا ں برف ہی گرتی ہے، اور یہ سلسلہ گرمیو ں سردیو ں میں جا ری رہتا ہے، ادھر محمکہ موسمیات سندھ کے ڈائریکٹر سردار سرفراز نے گلگت بلتستان میں ہو نے والی برفباری کی وجہ قبل از وقت مون سون بتائی ہے ان کے بقول اس قبل از وقت مو ن سون کی وجہ سے مغربی اور بحیرہ عرب کی ہواؤں کا رخ پاکستان کی طرف ہے وہی اس برفباری اور بارش کی وجہ ہیں، گویا قصور سارا مغرب اور بحیر ہ عرب کا ہے یہ مغرب پاکستان کو زک پہنچانے سے باز نہیں آتا خیر برفباری تو تحفہ خداوندی ہے تاہم بارش بھی رحمت ہی ہو تی ہے البتہ جس زور کی بارش ہوئی ہے اس نے غریب کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں یقینی طور پر حکومت کی کوتاہی بھی ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ محکمہ موسمیات کی رپو رٹ کا جائزہ لیا جاتا اور اس کے مطابق عوام کی ضروریات کے مطا بق الرٹ بھی جا ری کرتے اورعملی قدم بھی اٹھاتے افسوس تویہ ہے کہ محکمہ مو سمیات کا الرٹ تو جا ری ہو جاتا ہے لیکن اس میں وہ تفصیل نہیں ہوتی جو عوام کے لیے احتیا طی تدابیر کے لیے ضرور ی ہیں، اب موسمی شاعری کو ترک کر کے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر بے آباد ہونے والوں اور ویرانیا ں پھیلنے والوںکا فوری سد باب کرے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا