مشرقیات

جیسی کرنی ویسی بھرنی،پھر بھی عقل نہ آئے تو جاری رکھیں چوری چکاری ،بس اب دو چار سال کی بات ہی رہ گئی ہے بلکہ اس سے بھی کم عرصے میں جب ہم سب بولائے بولائے پھریں گے ایک دوسرے کا سر پھوڑیں گے یا پھر اپنا ہی گریبان چاک کر کے عقل وخرد کو خیر آباد کہہ دیں گے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ گیس تو اس کی بڑی وجہ عام وخاص سب کی چوری چکاری کی وہ عادت ہے جو قدرت کی طرف سے بخشے گئے وسائل کو کھا گئی ،اسی چوری چکاری نے ہم کو اس حال پر پہنچایا ہے کہ کبھی آئی ایم ایف کی منت زاریاں ہو رہی ہیں تو کبھی عرب پتیوںکی خوشامد ،جہاں بھی ناک رگڑنے جائیں بہرحال اب وہ پہلے جیسا ترس کھا کر ہمیں گھاس ڈالنے والی بات نہیں رہی بجائے اس کے صاف صاف کہا جارہا ہے کہ کب تک پھکاریوں کی طرح در در پھرتے رہوگے کوئی ایسا کام کیوں نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کی عادت پڑے اب ان مہربانوں کو کون بتائے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کی عادت ہم میں سے بہت سوں کو نہیں ہے ہوتی تو ہم اپنے وسائل بھی لوٹ مار کرکے کھا جاتے؟تو کہیں سے امداد کی توقع بعد میں رکھیں پہلے فیصلہ کر لیں کہ چوری چکاری ،لوٹ مار کی عادت چھوڑنی ہے یا اسے جاری رکھنا ہے ،ویسے تو لوٹنے کو اب مزید یہاں کچھ نہیں رہا جو لوگ کنڈے ڈال کر بجلی سے اپنے اے سی چلاتے تھے ان کے اے سی اب بجلی نہ ہونے کی باعث بند ہی ہوتے ہیں ان چوروں کو ہم نے خود حکومت کو الٹے ہاتھوں سے بددعا دیتے دیکھا سنا ہے ،کچھ منافقین تو ان میں ایسے بھی ہیں کہ خود ہی نہیں محلے بھر پر چوری کی بجلی حتیٰ کہ گیس بھی فروخت کرنے کا عرصے سے دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں ان کی پرورش خود محکمہ برق وباراں نے کی ہے پیسکو میں ملازمین کی بڑی تعداد کا بجلی فروخت کرنے کا کاروبار ہے۔پرائیویٹ ملازمین رکھے گئے ہیں اس کاروبار کی نگرانی کے لیے اور ساتھ میں الیکٹریشن کی خدمات بھی اٹھائی گئیں ہیں یہ دھند ہ پشاور اور دیگر شہروں میں عشروں سے جاری ہے اب بھی اس دھندے سے کچھ نہ کچھ کمائی کی جارہی ہے اگرچہ پہلے جیسا کاروبار چمک نہیں رہا تاہم دال روٹی لگی بندھی ہوئی ہے اس دھندے سے۔تو جناب جہاں دوسری وجوہات ہیں بجلی نہ ہونے کی وہیں ایک بڑی وجہ یہ چوری چکاری بھی ہے نہ کبھی محکمہ برق وباراں نے اپنے کارندوںکو لگام ڈالی نہ ان پیشہ ور چوروںکے خلاف کوئی دیانتدارانہ اقدام اٹھایا گیا اور حال بہ این جا رسید کہ بجلی ہے نہ پانی ،ہم سب وسائل لوٹ کھا گئے ایسے میں اب مانگے تانگے پر ہی گزارا ہوگا،مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن سے کچھ ملنے کی امید ہوتی تھی وہ بھی اب ہمیں دھتکار رہے ہیں تواب کریں تو کریںکیا ہمیں تو چوری کے سوا کچھ آتا بھی نہیں

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی