سمگل شدہ ادویات کی ملی بھگت سے فروخت

کارخانو مارکیٹ پشاور سے غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ مقامی طبی ادویات کے ساتھ ساتھ انڈین فارماسیوٹیکل کی ادویات کی سمگلنگ اور فروخت کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا ہے حیات آباد کے ارد گرد میڈیکل سٹورزکے علاوہ نجی ہسپتالوں میں بھی مذکورہ ادویات تجویز کرنے کی شکایات ہیں۔پشاور میں قیمتوںمیں اضافہ کے باعث سمگل شدہ ادویات کی سستے داموں میں فروخت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مارکیٹ سے مرگی ‘ ڈپریشن اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی میڈیسن موجود ہی نہیں خدا ترس میڈیکل سٹورز مالکان راشن کارڈ کی طرح منصوبہ بندی کے ساتھ مریضوں کو محدود سے محدودپیمانے پر چند گولیاں سپلائی کرنے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے جو غنیمت ہے ساتھ دوسری جانب ادویات کی خام مال کی مہنگائی اور ڈالر کی مہنگائی کی وجوہات کے ساتھ ساتھ دیگر وجوہ کی بناء پر ادویات کی ضرورت سے کہیں کم تیاری نہ صرف ان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس کی آڑ میں ادویات بھی بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں ایسے میں متبادل کے طور پر سمگل شدہ ادویات کے استعمال پر لوگ مجبور ہیں اور کم قیمت ہونے کے باعث بھی ان ادویات کی فروخت میں اضافہ کا باعث امر ہے کارخانو مارکیٹ میں اس طرح کی ادویات کھلے عام اور بڑے پیمانے پر فروخت کوئی پوشیدہ حقیقت نہیں سمگل شدہ ادویات کے استعمال کی کسی طور وکالت نہیں ہوسکتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جان پہ بنے تو لقمہ حرام کی بھی گنجائش نکل آتی ہے یہاں تو خلاف قانون ادویات کا سوال ہے جس کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں ناکامی واضح ہے ۔ مشکل امر یہ ہے کہ ایک طرف اس طرح کی صورتحال ہے تو دوسری طرف نجی ہسپتالوں میں جو کارخانو مارکیٹ کے آس پاس بھی ہیں اور دیگر علاقوں میں بھی قائم ہیں وہاں اگر مریضوں کو یہ ادویات باقاعدہ طور پر تجویز ہوں تو مریضوں اور ان کے لواحقین کی اکثریت کو علم ہی نہیں ہو سکتا کہ ان کو سمگل شدہ ادویات تجویز کی گئی ہیں اس طرح کے عناصر کی ملی بھگت ہی سے سمگل شدہ ادویات کاکاروبار چمک رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ صحت اور ہیلتھ کیئر کمیشن کے حکام کا رخانو مارکیٹ کے نزدیک واقع بڑے نجی ہسپتالوں کی خاص طور پر نگرانی کریں اور سمگل ادویات تجویز کرنے والے ڈاکٹروں کے لائسنس منسوخ کئے جائیں اگر نجی ہسپتالوں میں بطور ادارہ ان ادویات کے استعمال کی حو صلہ افزائی کا ثبوت ملے تو ان نجی ہسپتالوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
اونچی دکان پھیکا پکوان
معروف کاروباری علاقہ یونیورسٹی روڈ اور یونیورسٹی ٹائون میں اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے ریسٹورنٹس اور آئس کریم کی دکانوں میں صفائی کی ناقص صورتحال پر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کے چھاپے اور کارروائی قابل اطمینان امر ہے اس طرح کی کارروائی ایسے نمائشی کاروباری جگہوں کے خلاف کی گئی جو صارفین سے ہزاروں روپے کے بل وصول کرتے ہیں اور سادہ لوح صارفین ان کی چکا چوند کو صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فرض کرکے رجوع کرتے ہیں لیکن ان کی جیب صاف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت سے بھی کھیلا جاتا ہے ان عناصر کے خلاف فوڈ اتھارٹی کی مہم کافی عرصے سے ماند پڑ گئی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر تسلسل کے ساتھ اس طرح کی چیکنگ اور تادیبی کارروائی جاری رکھی جائے بار بار معائنہ کرکے حفظان صحت کے اصولوں کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں اور دوسری مرتبہ خلاف ورزی کی صورت میں کڑی سے کڑی سزا دی جائے جب تک حکومت کی عملداری کا عملی طور پر اطلاق نہ ہو اس طرح کے عناصر سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی صارفین اور عوام کو بھی چاہئے کہ وہ غیر معیاری خوراک کی فراہمی اور صفائی کا خیال نہ رکھنے پر رپورٹ کرنے سے اجتناب نہ کریں خامیوں کی نشاندہی بھی ایک فریضہ ہے اس پر تحقیقات کرکے کارروائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے باہم تعاون کا مظاہرہ کیا جائے تو بہتری کی توقع ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا