مشرقیات

ایک آدمی نے سلام کیا اور سامنے آکر بیٹھ گیا جن بزرگ کو اس نے سلام کیا تھا وہ حضرت بعداللہ بن عباس تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچیرے بھائی ۔ طبرانی ‘ بیہقی اور حاکم کی روایت ہے کہ ابن عباس اس وقت اعتکاف میں تھے واقعے کی تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی ہی میں وہ اعتکاف کر رہے تھے ابن عباس نے دیکھا کہ وہ آدمی بڑا رنجیدہ اور اداس ہے تو اس سے پوچھا کیا بات ہے ۔اس نے جواب دیا ۔ میں سخت پریشانی میں ہوں ایک دوست کا کچھ حق مجھ پر نکلتا ہے مطلب تھا کچھ قرض مجھ پر نکلتا ہے وہ مجھ سے مانگ رہا ہے اور میں ایسا مجبور ہوں کہ قرض ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ اور رسولۖ کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی مسلمان بھائی کو قرض دو تو یہ سمجھو کہ تم اس سے سلوک کر رہے ہو ۔ سلوک اور احسان میں آدمی کو چاہئے کہ ظرف بڑا رکھے ۔ احسان یا سلوک کے بعد طعنہ نہ دے اسے جتلائے نہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ساری برکتیں چھین لیتا ہے حکم یہ بھی ہے کہ جو مقروض ہو اسے مہلت دو معذور یا مجبور آدمی پر جبر کرنا اچھا نہیںہے قرض واپس لینے میں رعایت کرنا اور مقروض کوسہولت دینا ایک خوبی ہے جسے اسلام پسند کرتا ہے ایک طرف تو یہ حکم ہے دوسری طرف قرض لینے والے احسان اٹھانے والے سے کہا گیا ہے کہ جس محبت اور خلوص سے قرض لیتے اور احسان اٹھاتے ہو اسی محبت اور خلوص سے اسے واپس کر دو واپس کرنے میں اگر خوشدلی نہ ہو یہ بات اللہ کو بری معلوم ہو گی احسان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احسان کرنے والے کو ستائو یا پریشان کرو اگر ایسا ہو گا تو اللہ کی طرف سے اس کی سزا ملے گی۔حضرت عبداللہ بن عباس نے اس شخص کی مصیبت کا حال سنا تو اس سے کہا ۔ کیا میں تمہارے بارے میں اس شخص سے بات نہ کروں؟ اس نے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ضرور بات کریں حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ بات سنی تو اپنی جگہ سے اٹھے جوتے پہنے اور مسجد سے باہر نکلنا چاہا اس شخص نے دوڑ کر انہیں روکا بولا ۔ ابن عباس آپ کہیں یہ بات تو نہیں بھول گئے کہ آپ اعتکاف میں ہیں حکم ہے کہ جب آدمی اعتکاف میں ہو تو مسجد سے باہر نہ نکلے سوائے خاص خاص موقعوں کے اس شخص نے سوچا قرض ادا کرنے کے لئے مجھ سے جو اصرار قرض دینے والا کر رہا ہے اس سے اسے روکنا کوئی ایسا خاص کام تونہیں کہ جس کے لئے ابن عباس اعتکاف سے نکلیں اس لئے انہیں یہ بات یاد دلائی ۔ ابن عباس نے جواب دیا عزیز من میں یہ بات نہیں بھولا کہ میں اعتکاف میں ہوں لیکن میں نے اس ذات اقدس سے یہ بات سنی ہے جن کا یہ مزار مبارک ہے اشارہ حضور اکرمۖ کے روضہ مبارک کی طرف تھا کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام کے لئے چلا اور اس کی سہولت کے لئے کچھ کیا تو یہ بات ایک سال کے اعتکاف سے بہتر ہے ۔ابن عباس یہ جانتے تھے کہ جس نے ایک روز کا اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا اس شخص اور جہنم کے درمیان الہٰ العلمین تین خندقوں کا فاصلہ کر دیگا اور یہ فاصلہ بہت ہی بڑا ہوگا لیکن اس کے باوجود اعتکاف سے نکل گئے کہ ایک مصیبت زدہ شخص کے کام آئیں۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت