محنت کش بچوں کے حالات

چند روز قبل گاڑیوں کے ایک ورکشاپ میں جانا ہوا ۔ وہاں معمول کا کام ہو رہاتھا کہ اچانک کاریگر ایک گاڑی کی مرمت کرتے ہوئے پاس ہی کھڑے محنت کش بچے کو گالیاں دیتے ہوئے تھپڑ مارنے لگا۔ ایک صاحب نے اُسے مارپیٹ کرنے سے روکا ، معلوم ہوا کہ وہ بچہ آج قدرے دیر سے آیا ہے اور ابھی پوری دلجمعی سے کام بھی نہیں کررہا۔ یہ دیکھ کر بڑا رنجیدہ خاطِر ہوا، پھرسوچنے لگا کہ آج صرف ایسا نہیں ہوا بلکہ روزانہ ہر ایسی جگہ پر محنت کش بچوں کے ساتھ یہی سلوک کیاجاتا ہوگا۔نوعمری کی مشقت ایک انتہائی پیچیدہ اور سنگین مسّلہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غربت ہے جس کے ساتھ ہمارے سماجی ، تعلیمی ، تہذیبی اور معاشی رحجانات جڑے ہوئے ہیں۔ یہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں ایک ایسا مسّلہ ہے جہاں بچوں کو دوسرے ذرائع آمدنی اور پیداوار میں اضافہ کا وسیلہ تصور کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ادارۂ محنت اور ہمارے محکمہ شماریات سروے کرنے کے باوجود محنت کش بچوں کی مجموعی تعداد کا کوئی حتمی تعین تو نہ کر سکے کہ یہاںصنعتی ،تجارتی ، زرعی اور نقل وحمل کے شعبوں کے علاوہ غیر رسمی شعبے میں بچوں کے کام کی جز وقتی اور غیر مستقل نوعیت ہے ۔ پاکستان میں موجود شواہد کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان بچوں کی تعداد کسی طو ر پہ بھی ایک کروڑ سے کم نہیں ہو گی۔ والدین غربت و افلاس کی زندگی سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو شعوری عمر سے قبل مشقت کرنے پہ مجبور کر دیتے ہیں کہ کچھ پیسے کما سکیں۔ اس میں والدین کی کم علمی ، جہالت ،بے روزگاری ، آرام طلبی ،گھریلو جھگڑے ، بڑے بہن بھائی کی شادی اور والد کا نہ ہونا شامل ہے۔ نو عمر بچوں کو عموماً ایسے کاموں پر لگایا جاتا ہے جس کا تعلق کسی ہنر مندی سے نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ بچے کوئی ہنر نہیں سیکھ پاتے اور ان کی محنت بلکہ ذہانت کا بھی زیاں ہوتا ہے۔ کام کرنے والے بچے در حقیقت جبر کی چکی میں پِس رہے ہوتے ہیں ۔ایک طرف والدین کا جبر کہ وہ انہیں مشقت کرنے پر مجبور کیے ہوتے ہیں ،دوسری طرف کام لینے والے کم اُجرت میں زیادہ کام لے کر ان کا استحصال کر تے ہیں ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اور کام لینے والوں کی ایک اکثریت کا رویہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی نا مناسب ہوتا ہے۔ انہیں خوراک ،علاج، تفریح اور کھیل کود سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ اگر ایک بچے کو جسمانی ، روحانی ، اخلاقی اور سماجی تربیت دینے سے الگ رکھیں تو اس کی صلاحیت اور شخصیت کو فروغ حاصل نہیں ہوتا۔ محنت کش بچے تو پہلے ہی علم جیسا زیور پہننے سے محروم کیے جا چکے ہوتے ہیںاب انہیں نوعمری میں مشقت کا عادی بنا کر ان کا بچپن چھین لیا جاتا ہے ۔ ہاں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ نو عمری کی مشقت بچوں کو جرم و تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔اُنہیں ابتدائی عمر سے ہی بلوغت کے درشت ماحولیاتی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اُن میں خود ساختہ خود مختاری کا احساس پیدا ہوتا ہے ، وہ تمباکو نوشی ، جوا ، نشہ اور دیگر سستی تفریحات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ ان بّری خصلتوں کو اپنا کر جہالت اور بے راہ روی کے سبب وہ خود کو سماج میں ناپسندیدگی کا شکار پاتے ہیں ۔ اس طرح ان میں بدلہ لینے کی خواہش جنم لیتی جو اُنہیں جُرم و تشدد کی طرف لے جاتی ہے۔ جرائم میں ملوث گروہ بھی ایسے محنت کش بچوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو کم پیسوں میں بڑی آسانی سے ان کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے بچے ان پیشہ ور مجرموں کے اچھے معاون ثابت ہوتے ہیں کہ یہ گلی گلی اور گھر گھر کی خبر رکھتے ہیں اور پھر گروہ کا سرغنہ حالات کے مطابق ان سے کام لیتا ہے۔ پولیس نے بہت سے واقعات میں انہی بچوں کو پکڑ کر اصل مجرموں تک رسائی حاصل کی ہے۔ پولیس کی دسترس میں آنے والے بچوں کی زندگی بھی بڑی دردناک بن جاتی ہے ، یہ ایک الگ عنوان ہے اور اس کی کئی کہانیاں ہیں ۔ بچے وقت سے پہلے ہوشیار ہوجاتے ہیں ، بچپن کی بجائے جوانی سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور پھر اپنی عمر معاشرے سے بدلہ لینے میں گزار کر کہیں کھو جاتے ہیں ۔عالمی طور پر بالغ کارکنوں کی بڑھتی ہوئی بے روز گاری کی ایک وجہ بچوں کی یہ مشقت بھی ہے۔ظاہر ہے جب ایک بچہ کام کرتا ہے تو وہ ایک بالغ کو اس کام کے استحقاق سے محروم کر دیتا ہے ۔کام لینے والے بھی بچوں کو بڑوں پر فوقیت دیتے ہیں کہ انہیں کم اُجرت میں کام نکالنے کے ساتھ بچت بھی ہو جاتی ہے اور بڑوں کی نسبت آسانی سے بچوں کو مقررہ اوقات کا ر سے زیادہ وقت کام کرنے پر مجبور کر لیتے ہیں۔ آخر ان حالات کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی اور جبر کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ وہ والدین جو اپنے بچوں کو مالی منفعت کے لیے کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ،دراصل اس صورتحال کے حقیقی ذمہ دار ہیں ۔ مانا کہ غربت قدرت کی طرف سے ایک خوفناک سزا ہے مگر بچوں کو مشقت کی بجائے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے رویہ میں تبدیلی لازمی ہے۔ باشعور شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ عوام میں یہ احساس پیدا کریں کہ نوعمری کی مشقت کیسے اور کتنے منفی اثرات مرتب کرتی ہے جبکہ اس کی روک تھام اور بچوں کی تعلیم میں مددگار بنیں۔ یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ایسے قوانین کو روبہ عمل لائے جس کے تحت ہر بچے کو ہر درسگاہ میں مفت تعلیم میسر آسکے۔ بچوں کا حق ہے کہ انہیں سماجی تحفظ ،محبت، نگہداشت اور اچھا ماحول ملے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت