امریکہ ہمیں روس کیساتھ جنگ میں دھکیل رہا ہے

امریکی مورخ، ولیم بلم امریکی خارجہ پالیسی کے تازہ ترین ریکارڈ کا خلاصہ ہرسال شائع کرتے ہیں۔ اس کے مطابق امریکہ نے 1945 ء سے پچاس سے زیادہ حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے بہت سی جمہوری طور پر منتخب شدہ تھیں۔ صرف یہی نہیں، امریکہ نے تیس ممالک کے انتخابی عمل میں مداخلت کی، اتنے ہی ممالک کی شہری آبادیوں پر بم برسائے، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے اور غیر ملکی رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ کئی ایک واقعات میں برطانیہ اس کا معاون رہا ہے۔ جدید ترین ذرائع ابلاغ اور نام نہاد صحافتی آزادی کے باوجود مغرب میں انسانی اذیت، چہ جائیکہ مجرمانہ سرگرمی، کا اعتراف نہیں کیا جاتاکہ دہشت گردی۔۔۔ہماری دہشت گردی۔۔۔ کا شکار ہونے والے زیادہ افراد مسلمان ہیں۔ جو جہادی سوچ گیارہ ستمبر کے واقعات کا باعث بنی، اس کے بیج اینگلو امریکن پالیسی (آپریشن سا ئیکلون، افغانستان)کے تحت بوئے گئے تھے، اور جس کے بعد اگنے والی فصل کو روندڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہمارے دشمن کا نام گزشتہ برسوں کے دوران کمیونزم سے تبدیل ہوکر اسلام ازم ہوگیا لیکن عام طور پر یہ کوئی بھی معاشرہ ہوسکتا ہے جو مغربی طاقت سے آزاد ہو اور تزویراتی طور پر فائدہ مند یا وسائل سے مالا مال علاقہ رکھتا ہو، یا محض امریکی تسلط قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو، رکاوٹ بننے والی قوموں کے رہنماؤں کو طاقت اور تشدد کے استعمال سے اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا رہا، یوکرین میں واشنگٹن کا کردار صرف اس کے مضمرات کی وجہ سے ہمیں مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ہم مغرب میں اب ایک ایسے ملک میں نیو نازیوں کی حمایت کر رہے ہیں جہاں یوکرین کے نازیوں نے ہٹلر کی حمایت کی تھی۔
فروری میں کیف میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کیخلاف بغاوت تیار کی گئی۔ کریمیا جو کہ تاریخی طور پر روس کا گرم پانی کا بحری اڈہ ہے، پر واشنگٹن کا قبضہ کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ روسیوں نے اپنا دفاع کیا، جیسا کہ انھوں نے تقریباً ایک صدی سے مغرب کے ہر خطرے اور حملے کا مقابلہ کیا ہے۔ نیز ہفتے کے آخر میں ہونے والے روسی نسل کے افراد کو مشرقی یوکرین میں اشتعال انگیز ریفرنڈم سے بھی روک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے پیوتن نے جنگ پر تلے ہوئے فریق کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ روسی بولنے والے باشندے یوکرین کی آبادی کا ایک تہائی ہیں۔ یہ طویل عرصے سے ایک جمہوری وفاق کی تلاش میں ہیں جو ملک کے نسلی تنوع کی عکاسی کرتا ہو۔ نیز یہ کیف اور ماسکو، دونوں سے آزاد ہو۔ زیادہ تر نہ تو علیحدگی پسندہیں اور نہ ہی باغی، جیسا کہ مغربی میڈیا انھیں قرار دیتا ہے۔ یہ وہ شہری ہیں جو پرامن طریقے سے اپنے وطن میں رہنا چاہتے ہیں۔
عراق اور افغانستان کے کھنڈرات کی طرح یوکرین کو بھی سی آئی اے کے تھیم پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسے ذاتی طور پر کیف میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن چلاتے ہیں۔سی آئی اے اور ایف بی آئی کے درجنوں خصوصی یونٹس رکھنے والا ایک سکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔ فروری کے شب خون کی مخالفت کرنے والوں پر حملے کیے گئے۔
روسی بولنے والے یوکرین کے باشندے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب پیوتن نے سرحد سے روسی فوجیوں کے انخلاکا اعلان کیا تو کیف حکومت کے سیکرٹری دفاع، آندری پاروبی، جو کہ فاشسٹ سووبودا پارٹی کے بانی رکن ہیں، نے فخر یہ انداز میں کہا کہ باغیوںپر حملے جاری رہیں گے۔ اوڈیسا کے قتل عام کے بعد تحمل کا مظاہرہ کرنے پر اوباما کی جانب سے بغاوت کرنے والی جنتا کو مبارک باد دی گئی تھی۔
امریکی میڈیا میں اوڈیسا میں ڈھائے جانے والے مظالم کو مبہم سانحہ کے طور پر پیش کیا گیا جس میں قوم پرست، نیو نازیوں نے علیحدگی پسندوں پر حملے کیے تھے۔ ایک مقبول سچائی یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا بدل چکی ہے۔ لیکن کیا بدلا ہے؟ عظیم سیٹی بلور ڈینیئل ایلسبرگ کے مطابق واشنگٹن میں ایک خاموش تبدیلی وارد ہوئی ہے۔ اب وہاں شدت پسند عسکریت پسندی کا راج ہے۔ پینٹاگون اس وقت124ممالک میں خصوصی آپریشنز(خفیہ جنگیں) چلا رہا ہے۔ اپنے ملک میں ایک دائمی جنگی ریاست بنے رہنے کا تاریخی نتیجہ اس غربت اور آزادی کے نقصان کی صورت نکلا ہے۔ اب اس میں ایٹمی جنگ کا خطرہ شامل کریں۔سوال یہ ہے کہ: ہم اسے کیوں برداشت کرتے ہیں؟

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت