مشرقیات

یہ ماںباپ ہوتے ہیں جو جھوٹ نہ بولنے کی تلقین کرنے سے نہیں چوکتے ،پھر معلوم نہیں جھوٹ بولنا کیوں ہماری گھٹی میں پڑا نظر آتاہے ایک بار ہم نے دودھ والے سے پوچھا ”دکان پر شرطیہ خالص دودھ کا بورڈ کیوں آویز اں کیا ہوا ہے تو وہ آگے سے بولاتو اس میںغلط کیا ہے ؟ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی ”دودھ میںپانی ،سوڈا وغیرہ سب ملا کے اس میں خالص کیا رہا ؟تو دودھ فروش آگے سے بولاجناب آپ بورڈپر لکھے فرمان سے دودھ تک کیوں آگئے ،بورڈ پر املا میں کوئی غلطی دکھا ئیں۔اس کے بعد ہم نے کیا کہنا تھا۔ایسے ہی کسی سے شہد خریدیں یا کپڑالتا یا کوئی بھی دیگر جنس آپ کو مسکرامسکرا کر وہ اپنے مال کی وہ خوبیاں بتائی جائیں گی کہ آپ زیادہ نرخ بھی چکانے کو تیار ہو جائیں گے۔یہ اور بات کہ بیچنے والے اپنے ملاوٹی لہجے کے ذریعے سر بازار جھوٹ کا سودا کرتے ہیںاور آپ کو چونا لگا دیا جاتا ہے،کل پرسوں کی بات ہے ہم نے سیکینڈ ہینڈ موبائل خریدنے مارکیٹ کا رخ کیا تو ایک ”امیر صاحب”کی نورانی صورت پر اعتبار کر کے ان کے کائونٹر پر چلے گئے وہ گویا ہماری ہی راہ تک رہے تھے سامنے دھرے شوکیس سے ایک موبائل نکالنے کا کہا جس کی چمک دمک نرالی تھی،اپنی عقل کے مطابق دیکھ بھال کر کے قیمت سکہ رائج الوقت میں ساڑھے دس ہزار چکائی اور گھر آگئے ،اگلے روز جب موبائل کو چارج کرنے کی ضرورت پڑی تو موبائل آن ہونے کا نام نہیں لے رہا،کسی سیانے کو دکھایا تو اس نے کہہ دیا بیٹری خراب ہے پندرہ سو مزید دیں تو کام کرے گا دوسری صورت میں موبائل ایک ہزار میں فروخت کرنا چاہیںتو بندہ حاضر ہے۔اب ہمیں بری طر ح امیر صاحب یا د آنے لگے تھے۔آپ ہی بتائیں امیر صاحب نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک ایسا موبائل ہم پر فروخت کررہے ہیں جس میں نقص ہے اور وہ بھی خا صا مہنگا۔اس کے باوجو د انہوں نے ہم پر موبائل فروخت کرکے صرف اپنا مفاد ہی یاد رکھا۔کیا یہ دھوکہ فراڈ جھوٹ نہیں ہے جس سے ہم آئے روز پاکستان کے ہر شہر میں دوچار ہوتے ہیں۔سوال پھر وہی ہے کہ یہ جھوٹ آخر ہماری گھٹی میںکیوں پڑا ہوا ہے ہم اس کے ذریعے اپنا الو سیدھا کرنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ سچ بول کو بھی الو کو سیدھے راستے پر ڈالا جاسکتاہے کیا آپ نے دیکھا نہیں جو ہم سے ترقی میں دس قدم آگے ہیں وہ سچ بول کر ہی اس مقام پر کھڑے ہیں اور ہم انہیں حسرت کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ادھر ان کا کہنا ہے ہماری ہم نشینی کرنی ہے تو جھوٹ کو پھانسی دو؟اس جھوٹ کے باعث ہم نے اپنے ہاتھوں سے پوری قوم کو ایسا الو بنایا ہوا ہے جو سیدھا ہو ہی نہیں سکتا۔پھر بھی سچائی کو کوئی آزمانے کو تیارنہیں ہے اس لیے جھوٹ کی مار اب ہم کو ایسی قیادت کی صورت میں بھی ملنے لگی ہے جس کے بارے میں کسی سیانے نے کہا تھا” جیسی روح ویسے فرشتے”۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!