بہتری کے آثار

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال تک انتخابات کا انتظار کرسکتے ہیں لیکن ملکی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ترک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ملکی معیشت دن بہ دن گر رہی ہے اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جلد از جلد انتخابات کروا کر عوامی حکومت کو لایا جائے۔دریںاثناء نئے آرمی چیف کے انتخاب سے قبل مشاورت کا بار بار مطالبہ کرنے کے بعد اب سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں اس اہم تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک کو ہموار انداز میں چلانا ہے تو وزیر اعظم کو بااختیار ہونا چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ مجھے فوج سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، مسائل صرف احتساب کے معاملات پر پیدا ہوئے اگر ملک کو ہموار انداز میں چلانا ہے تو وزیر اعظم کو انتظامیہ کے ساتھ اقتدار بھی سونپا جانا چاہیے۔سابق وزیر اعظم مختلف اوقات میں مختلف خیالات کا اظہار اور پہلے والے موقف کے برعکس موقف اختیارکرنے کے بعد دوبارہ سابقہ موقف کااعادہ کرتے آئے ہیں اس تناظر میں ان کے موجودہ خیالات کوحتمی موقف کے طور پر تونہیں لیا جا سکتا البتہ اس سے اس امر کا اظہار ضرور ہوتا ہے کہ حالات نے ان کی سوچ میں تبدیلی ضرورلائی ہے اورحالات کا دبائو رہا تو وہ اسی موقف کو جاری رکھ سکتے ہیں بصورت دیگر محولہ ہردو امور بارے اپنے سخت موقف کا اعادہ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اس جملہ معترضہ سے قطع نظر معیشت کے حوالے سے ان کی تشویش بجا ہے لیکن انہوں نے اس موقع پرایسا کوئی پروگرام یا لائحہ عمل پیش نہیں کیاجس سے معیشت کی بہتری شروع ہوجائے امر واقع یہ ہے کہ خود ان کی حکومت ہی کے دوران ملکی معیشت پر بوجھ میں اضافہ ہوا اور ملکی قرضے کا اسی فیصد حصہ صرف ان کے پونے چار سالوں میں لیاگیا اب محرومی اقتدار کے چھ سات ماہ بعد یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کی تشویش کا محور معاشی حالات کی ابتری ہے جن کا حل ان کی دانست میں انتخابات ہیں بہرحال حسن ظن کاتقاضا یہی ہے کہ ان کی تشویش بجا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس وقت ملک میںخود ان کی جماعت احتجاج اور مختلف اداروں کے حوالے سے اختیار کردہ عوامل کے جو منفی اثرات معیشت اورملکی اقتصاد پر مرتب ہور ہے ہیں اس کا تو تقاضا ہے کہ اس فضا کا جتنا جلد ممکن ہوسکے خاتمہ ہونا چاہئے نیز ایک اہم تقرری کے معاملے کوبھی سیاست اور تبصروں کا موضوع بنانے سے گریز کرکے آئین اور قانون کے مطابق احسن طریقے سے اس عمل کی تکمیل ہونے دی جائے اس کے بعد ہی ملکی معیشت کا پہیہ ملکی نظام میں استحکام نظر آنے کی صورت میں چل پڑے گاجب تک ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی کیفیت طاری ہے سرمایہ کاری وکاروبار اور رزگار سبھی کے بری طرح متاثر ہونا فطری امر ہوگامقام اطمینان یہ ہے کہ تحریک انصاف کے قائد نے بالاخر اہم تقرری سے علاقہ نہ رکھنے کا عندیہ دیا ہے یہ عمل جس سنجیدہ کردار کا متقاضی ہے اسے اختیار کرنا ہی ملکی مفاد میں ہوگا مروجہ طریقہ کار کے مطابق تعیناتی کو روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں اور مقررہ وقت پرایسا ہونا تو بہرحال ہے اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ اس موضوع کوخواہ مخواہ موضوع بحث بنانے سے گریز کیاجائے۔ فوج سے اختلافات کی وجوہات بارے ان کا موقف بھی مدلل اس لئے نہیں کہ احتساب فوج کا کام نہیں اس کے لئے باقاعدہ خود مختار ادارہ موجود ہے جوان کے دور میں خاصا فعال ضرور رہا لیکن عدالت میں مقدمات ثابت نہ کرنے سے سارا عمل لاحاصل ٹھہرا اوراب عدالتیں ان مقدمات کو سرے سے ہی بے بنیاد ہونے پر نمٹانے لگی ہیں ایسے میں اس معاملے پراختلافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس سے قطع نظر وزیراعظم کو انتظامیہ کے ساتھ اقتدار سونپے جانے کا جوسوال ہے اس کی جدوجہد حال ہی میں شروع نہیں ہوئی اس کی ایک تاریخ ہے اور ماضی میں انہی ا ختلافات پر حکومتوں سے محرومی اور اقتدارکی قربانی دینے کی مثالیں موجود ہیں بہرحال اب جبکہ اس امر کا احساس عملی تجربے کے تناظرمیں ہوچکاہے تو اس کا تقاضا یہ نہیں کہ تمنا کچھ اور ہو اور کمزور سیاست و حکومت کو کیاجائے بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ سیاستدان پوری طرح اس ضمن میں اتفاق پیدا کریں اور شفاف وغیرجانبدارانہ انتخابات میں جو جماعت یا اتحاد کامیابی حاصل کرے اس کا ہر کسی کو آزادانہ موقع ملے او رکوئی بھی سیاسی جماعت یا اتحاد کسی کے کندھے پر سوار آنے کی کوشش کی بجائے عوامی مقبولیت اورووٹوں کی اکثریت سے آزادانہ طور پرحکومت سازی کی ٹھان لے اور اس پر اخلاص کے ساتھ اس پر عملدرآمد کیا جائے یہ ایک بہتر صورت بھی ہے اور اس کا زریں موقع بھی نیوٹرل ہونے کی صورت میں موقع بھی سامنے آیا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کا تقاضا ہے کہ سیاسی لڑائی سیاسی طریقوں سے لڑی جائے سیاسی طور طریقوں سے اقتدار حاصل کرکے ہی با اختیارہونے کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی اب یہ سیاستدانوں ہی پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کا کس طرح سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  9مئی سے 9مئی تک