کینیڈا کا بیورو کریٹک سسٹم

بیورو کریسی کو افسر شاہی کا نام دیں، نوکر شاہی کہیں یا انتظامی مشینری مگر بیورو کریسی کسی بھی ملک کے نظام اور حکومت کا چہرہ ہوتی ہے، اسی لئے سرکاری مشینری کو انتظامیہ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کے باعث اسے ریاست کا تیسرا ستون قرار دیا گیا ہے، تاہم جس ریاست کا بیوروکریٹک نظام مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے وہ ریاست اور حکومت مستحکم و مؤثر ہوتی ہے، اس کی ایک مثال آج کی دنیا میں کینیڈا ہے،کینیڈا کی بیورو کریسی کو مختلف محکموں، ایجنسیوں اور کارپوریشنوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اہم ترین بیورو کریٹس وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ماتحت ہوتے ہیں اور یہ حکومت کی پالیسیوں کے مطابق عوامی خدمات کے لئے کام کرتے ہیں۔ کینیڈین بیورو کریسی کو ایک نیوٹرل عمل کے ذریعے بھرتی کیا جاتا ہے جو مہارت اور غیر جانبداری سے کام کرنے پر زور دیتا ہے۔
وفاق صرف صوبائی اکائیوں کو متحد اور یکجا رکھنے کا ذمہ دار ہے، دفاع، کرنسی، امور خارجہ، ٹیکس، کسٹمز، ایکسائز کی وصولی اور صوبوں سے محصولات میں سے مخصوص حصہ لیتا ہے مگر تعلیم، صحت کے ساتھ بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے فنڈنگ اور پالیسی سازی اس کی ذمہ داری ہے باقی تمام نظام و انصرام صوبے سنبھالتے ہیں، محکموں کی تعداد بھی حیرت انگیز حد تک کم ہے، جس کی وجہ سے شہریوں، صارفین، تاجروں،صنعت کاروں، زمینداروں اور عام لوگوں کے مسائل ایک ہی چھت تلے بروقت بغیر رشوت سفارش کے ہو تے ہیں، شہریوں کے مسائل کا فوری حل ریاستی مشینری اپنا فرض اور شہریوں کا حق گردانتی ہے اور شہری قانون کے مطابق ٹیکس ادائیگی اور قوانین کا احترام فرض جانتے ہیں اسی وجہ سے اس ملک کو جنت ارضی کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو گا۔
قارئین،میں ان دنوں کینیڈا میں ہوں،اس کے سسٹم کو دیکھ رہا ہوں، دوسری طرف وطن عزیز کی صورت حال کا جائزہ لیں تو محکموں، قوانین اور قواعد و ضوابط کی بھر مار کے باوجود شہریوں کے مسائل لاینحل ہیں، شہری ایک یوٹیلیٹی بل کی درستی کیلئے کئی کئی روز درجنوں دفاتر کے دھکے کھاتا وقت اور روپے ضائع کرتا ہے مگر اس کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے،آخر کار اسے رشوت یا سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے، یہ بات بھی اب کھلا راز ہے کہ قواعد و ضوابط میں سقم اور ابہام قانون ساز دانستہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ عوام اپنے معمولی نوعیت کے کاموں کیلئے ان کے ڈیرے یا دفاتر کے چکر لگاتے رہیں اور محسوس کریں کہ یہی منتخب یا غیر منتخب شخصیت ہماری نا خدا ہے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس سیاسی شخصیت کے در کا چاکر بن جاتا ہے، یا پھر رشوت دیتا یا سفارش تلاش کرتا ہے،ہمارے ہاں حکومتوں کی ناکامی اور آئینی مدت پوری نہ کرنے کی ایک وجہ قوانین کے یہ سقم اور ابہام بھی ہیں۔
کینیڈا میں صرف تین اہم دفاتر ہیں جو ریاستی نظام کیساتھ عوامی مسائل کا حل بھی تلاش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کے مسائل استحقاق کی بنیاد پر از خود حل ہو پاتے ہیں، رشوت یا سفارش کا اس ملک میں تصور نہیں،اپنے معمولی مسائل کے حل کیلئے شہری منتخب نمائندوں کے گھر دفتر ڈیرے پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے،کینیڈا میں ایک محکمہ کینیڈا ریونیو ایجنسی ہے جو ٹیکس او ر مالی معاملات کو دیکھتی ہے، مگر ٹیکس کولیکشن صوبوں کی ذمہ داری ہے جو وصولی کر کے دیانتداری سے وصول شدہ رقم وفاق کے حوالے کرتے ہیں، وفاق ان رقوم میں سے صحت تعلیم اور بنیادی انسانی ضروریات کیلئے صوبوں میں امیر غریب کا فرق کئے بغیر مساوی فنڈز تقسیم کرتا ہے، تعلیمی پالیسی وفاق بناتا ہے عمل درآمد صوبے کرتے ہیں ۔
وفاقی معاملات کو سروس کینیڈا اور صوبائی معاملات کو اس محکمے کا صوبائی دفتر دیکھتا ہے،میں کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ہوں یہاں صوبائی دفتر سروس اونٹاریو کہلاتا ہے، آپ چاہیں تو آن لائن اپنا کام کرا لیں یا ان دفاتر کا وزٹ کر لیں آپ کا کام بآسانی منٹوں میں ہو جاتا ہے۔میری فیملی نے نئی گاڑی لی تو ہمیں چند منٹوں میں گاڑی کی رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ مل گئی۔ بلدیاتی،شہری اور دیہی ترقی کے لئے میونسپل کا ایک مضبوط نظام موجود ہے جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود خدمات انجام دیتا رہتا ہے،یہ کارپوریشنز اور کمیٹیاں چھوٹی ہوں یا بڑی اپنے اپنے دائرہ کار میں بااختیارہوتی ہیں،وفاق یا صوبے ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے ۔
کینیڈا کی اصل خوبصورتی تحمل برداشت رواداری احترام اور مسکراہٹ کا تبادلہ ہے، ہمیں اسلام نے حکم دیا کہ کہ سلام کو رواج دو جب ایک دوسرے سے ملو تو جان پہچان ہو یا نہ ہو ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو مگر ہم نے اس بھائی چارے کو فروغ دینے والی روایت کو فراموش کر دیا مگر کینیڈا کے معاشرہ میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانا اور ہیلو کہنا ایک مستقل روایت ہے،اس روایت نے مختلف رنگ نسل مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔کینیڈا کی سرکاری یا انتظامی مشینری کے ہر کارکن اور افسر کے لئے صارفین اور شہریوں کے لئے خوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی ایک امتیازی خصوصیت ہے، دفاتر میں آنے والے کسی شہری کے ساتھ تلخی سے بات کرنا نہ صرف معیوب بلکہ غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری