صوبے میں امن و امان کی صورتحال

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت پراونشل سکیورٹی سیکرٹریٹ کے اجلاس میں ادارے کی فعالیت سے متعلق اُمور اور پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر متعلقہ حکام کو غیر قانونی سم کارڈز، این سی پی گاڑیوں، سائبر کرائمز، دھماکہ خیز مواد اور بھتہ خوری وغیرہ کے کیسز سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سیکرٹریٹ شراکت داروں کی ماہانہ پراگرس رپورٹ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ اور ہیڈ کوارٹر الیون کور کے ساتھ شیئر کرے گا جبکہ محکمہ داخلہ بھتہ خوری اور دیگر غیر قانونی کیسز کے حوالے سے عوامی شکایات کے حصول کے لیے طریقہ کار اپنی متعلقہ ویب سائٹ پروضع کرے گا ۔ایپکس کمیٹی کے چھ ماہ بعد منعقدہ اجلاس میں جن امور و معاملات پر غور کیاگیا ہے اور وزیراعلیٰ نے جوہدایت جاری کی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ گویااس کمیٹی کی تشکیل حال ہی میں ہوئی ہے یاپھراس کی تشکیل نو کی گئی ہو وگرنہ روزاول سے کمیٹی کے پیش نظر محولہ معاملات چلے آرہے ہیں اور کمیٹی کی کارکردگی پربھی اگر مکمل طور پر اعتماد نہیںکیا جاسکتا تو پوری طرح عدم اعتماد کی بھی گنجائش نہیں چھ ماہ بعد کمیٹی کے اجلاس اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں مختلف سنگین واقعات اوراس وقت جاری کرم کی سرحدی صورتحال سے حالات کی سنگینی اور آمدہ دنوں کے لئے خطرات کی گھنٹی ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات پیش آئے جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس سمیت کئی شہری جاں بحق ہوئے۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے ساتھ مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی جنوبی اضلاع میں حالات ایک بار پھر خراب ہو رہے ہیں، ماضی کی طرح دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے، تاہم واقعات میں تسلسل نظر آرہا ہے۔ زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی اور ان حملوں کو جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے بھی بڑی معنی خیز بات کرچکے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد رہا کیے گئے دہشت گرد اب امریکی فوجیوں سے رہ جانے والے ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کی تلاش میں ہیں صورتحال کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف بھی اس امر کو تسلیم کر چکے کہ افغانستان سے عسکریت پسندوں کے مختلف گروپس جنوبی اضلاع میں موجود ہیں جو ان کارروائیوں کے پیچھے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر واقعہ کے پیچھے ٹی ٹی پی ملوث ہو، بہت سے اور گروپس بھی ہیں ان حالات سے قطع نظر دہشت گردی کا اثر ہمارے قبائلی اضلاع پر براہ راست پڑ رہا ہے اور اس میں اضافہ کا خدشہ ہے۔اس ساری صورتحال کے تناظرمیں پیدا شدہ حالات پربھی کمیٹی میں یقینا تفصیلی غور و حوض ہوا ہو گاجس کا ذکر نہیں کیا گیا اس حوالے سے مصلحت کا آڑے آنا فطری امر ہے بہرحال یہ عوامل اور اس سے جڑے معاملات کوئی پوشیدہ امر نہیں دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ صوبے میں امن وامان خاص طور پر اغواء برائے تاوان ‘ بھتہ خوری کے واقعات میںاضافہ جیسے عوامل میں اضافہ ہوتارہا ہے دہشت گردی کی جس بدترین لہر سے ہم نکل چکے ہیں اس دوران ان تمام واقعات اور حالات سے صوبے کی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کواس سے واسطہ پڑچکا ہے اور ان حالات سے نمٹنے کا تجربہ بھی ہے جن کی روشنی میں اب اس طرح کے سر اٹھائے واقعات اور عوامل کو مدنظر رکھ کر چوکسی اور پوری تیاری کی ضرورت ہے جس کے لئے ضروری وسائل مہیا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ان معاملات ہی سے صوبے کا امن و امان بھی جڑا ہے جس کا تقاضا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح تیاری اور فعالیت کی حالت میں رکھا جائے اس کاایک ذیلی فائدہ سٹریٹ کرائمز میں کمی کی صورت میں سامنے آئے گا اور عوام کو تحفظ کا احساس ہو گا۔ معمول کے جرائم میں اضافے ہونے سے شہری جس قسم کے عدم تحفظ کا شکار ہیں یہ بھی خاصا توجہ طلب معاملہ بن چکا ہے نفاذ قانون اور شدت پسند و جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے منشیات کی تجارت کی روک تھام اور اس جیسے دیگر معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں جس میں شدت پسند عناصر ملوث بھی ہوتے ہیں اور اپنی کارروائیوں کے لئے حصول معلومات سے لے کر مالیاتی ضرورتوں کی تکمیل تک کے لئے بھی وہ ان ذرائع کا استعمال کرتے ہیں شدت پسندوں کی راہ روکنے کا اولین تقاضا یہی ہے کہ ان کے ذیلی مفادات وسہولت کاروںکاصفایا کرکے ان کو اپاہچ بنادیا جائے اور ساتھ ہی عوام کو تحفظ دلانے کی ذمہ داری کے تقاضے بھی بطریق احسن پورے ہوں۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا