تقرری و امتحان

سینیارٹی کی بنیاد اور میرٹ پر آپریشنل تجربے اور انٹیلی جنس مہارت سے بھرپور کیریئر کے حامل سپاہی جنرل عاصم منیر کو ملک کا 11واں آرمی چیف مقرر کرنے اور قابل رشک کیریئر کے حامل ایک اور انفنٹری آفیسر جنرل ساحر شمشاد مرزا کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر ہونے کے بعد ملک میں اس غیر یقینی کی کیفیت اور ماحول کا خاتمہ ہو گیا جو پیالی میں طوفان کی مانند ہونے کے باوجود قوم کے اعصاب پر سوارتھا۔ تمام تر افواہوں اور خدشات کے برعکس صدر مملکت نے ترقیاں اور تعیناتیاں آئین کے آرٹیکل243چار اے اور بی، آرٹیکل48اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 8 اے اور 8 ڈی کے تحت کرنے کی ذمہ داری احسن طور پر سرانجام دے کرتمام خدشات کاخاتمہ کیا قبل ازیں خیال کیا جارہا تھا کہ تحریکانصاف انصاف کے تحفظات کی وجہ سے صدر علوی وزیر اعظم سے سمری پر نظرثانی کے لیے اسے واپس بھیج سکتے ہیں لیکن یہ عمل بغیر کسی تاخیر کے اپنے اختتام کو پہنچا۔جنرل عاصم منیر ایک ایسے موقع پر پاک فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالیں گے جب ملک میں شدید سیاسی کشمکش جاری ہے۔ان کے پیشرو، جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک دن پہلے کہا تھا کہ فوج کو گزشتہ سات دہائیوں کے دوران سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ فروری 2021 میں لیا گیا تھا۔اب تمام نظریں جنرل عاصم منیر پر ہیں کہ وہ ملک کی صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں۔نئے آرمی چیف کو ادارے پر ہر قیمت پر اعتماد بحال کرناہو گااگرچہ اس معاملے کا ملکی سیاست کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت تونہیں لیکن اس تقرری کے عمل کے دوران کے معاملات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بنا بریں اگر پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو جتنی سیاست اس تقرری پر ہوئی ہے اور جس حد تک سخت عوامی بحث اس تقرری کے حوالے سے ہوئی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سابق وزیرِاعظم کی جانب سے فوج کے سربراہ کی تعیناتی کو عوامی جلسوں میں موضوع بحث بنایا گیا جس سے یہ تقرری بھی سیاست کی نذر ہوئی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں نے ہی اس تقرری کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی۔قبل ازیں ہی جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بطور آرمی چیف یہ کہہ چکے ہیں کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی جو خوش آئند بیان ہے لیکن یہ بیان اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ ماضی میں ہونے والی حکومتی تبدیلیوں، حکومت کو گرانے اور بنانے اور انتخابات میں کہیں نہ کہیں ادارے کا عمل دخل رہا ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی چھڑی جنرل عاصم منیر کو سونپنی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسقبل میں ہماری سیاست اس گھن چکر سے باہر نکلے گی؟ اور قوم کو درپیش بنیادی مسائل اور اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے دہائیوں پر محیط حکمتِ عملی تیار کی جائے گی یا پھر حالات اسی طرح برقرار رہیں گے؟ آنے والے دن شدید معاشی مسائل کا سامنا کرتے اس ملک کے لیے مزید چیلنجز لے کر آئیں گے۔آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ملک بھر میں ماہرین نے سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید کا اظہارکیا ہے ماہرین کے مطابق ملک میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ موجودہ حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی میں زیادہ وقت لینا اور معاملات آخری وقت تک لے جانے کے باعث بھی ملک میں جاری غیر یقینی صورتحال نے ہیجان کی صورتحال پیدا کردی تھی تاہم اب پرامید ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ملک بھر میں استحکام سامنے آئے گا اور سیاسی جماعتیں سڑکوں پراحتجاج کی بجائے ایک دوسرے سے زیادہ اپنی انتخابی مہم پر توجہ دیں گی سی طرح حکومت کے پاس اب تمام تر توجہ کارکردگی پر مرکوز کرنے کا بھی موقع ہاتھ آگیا ہے اور آئندہ دو سے تین ماہ میں معاشی اشارے بھی بہتر ہونے کی امید ہے ۔آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے دیکھنا یہ چاہیے کہ ملک و قوم کے لیے کیا بہتر ہے۔ اب یہ تعیناتی ہوچکی ہے اور اس پر مزید بات کرنا شاید مناسب نہیں۔اب تمام سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے اور یہ سب کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کریں کہ اب آرمی چیف کا تقرر ہوچکا ہے اور وہ ایک ادارے کے سربراہ ہیں۔ آرمی چیف نہ تیرا ہوتا ہے نہ میراکیونکہ یہ آرمی چیف کا کام ہی نہیں ہے۔جہاں تک نئے آرمی چیف کا تعلق ہے جنرل عاصم منیر پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان پر ماضی میں آنے والے آرمی چیف کی نسبت کچھ مختلف ذمہ داریاں ہوں گی۔ اس وقت فوج پر جس قسم کی تنقید ہورہی ہے، جس کا ذکر جنرل باجوہ نے بھی کیا، اس کو دیکھتے ہوئے جنرل عاصم منیر کو اپنی روایتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فوج کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ یہ اس وقت ہوگا جب زبانی باتوں کے علاوہ عملی اقدامات سے بھی ثابت کیا جائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ اب غیر سیاسی ہوگئی ہے۔ایسے میں نئے آرمی چیف کے ہر ہر قدم پر نظر رکھی جائے گی اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی اہمیت ہوگی۔سب سے اہم بات یہ کہ اب آگے بڑھنا چاہیے اور ملک کو استحکام کی جانب لے جانا چاہیے۔امید جانی چاہئے کہ ہمارا یہ ادارہ اپنی ماضی کی ساکھ دوبارہ حاصل کرے گا اور عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلے گا کیونکہ فوج کی اصل طاقت عوام ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ یہ ادارہ سیاست سے دور رہے گا، ادارے کے افراد اپنے حلف کی پاسداری کریں گے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ