قومی مکالمہ بحرانوں کے حل کا واحد راستہ

انسانی دانش کے صحیح استعمال اور معقول فیصلوں کے لیے پرامن ماحول درکار ہوتا ہے،جب انسان کی عقلیت کو ذاتی خواہشات دبا دیں تو انتشار، دشمنی اور انارکی منزل بن جاتی ہے، پاکستان میں موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی خلفشار قومی مفادات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اندرون ملک افراتفری اور مخاصمانہ رویوں کے ملکی خارجہ پالیسیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ملک تو ہے ، لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں قسم کے وسائل غیر معقول ذاتی خواہشات کی بدولت بدانتظامی کا شکار ہیں، موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی عدم استحکام درحقیقت پورے ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجودہ چند لوگوں کے مفادات کے تصادم کا نتیجہ ہے، انسانوں کے پیدا کردہ بحرانوں کو انسانوں کی ہی عقلی صلاحیتوں اور فیصلوں کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ذاتی خواہشات اور چپقلشوں کو پس پشت ڈالنا پڑے گا، اسی طرح اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے انفرادی منشا کو سب کی مرضی کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے ، ایسا صرف جامع و نتیجہ خیز بحث اور قومی سطح پر دانش مند ذہنوں کے ساتھ مکالمے کے بعد سماجی معاہدے کی تجدید سے ہی ممکن ہے۔
تاریخ کے اوراق ایسے بے شمار مسائل اور تنازعات سے بھرے پڑے ہیں جن کا حل ہمیشہ بات چیت سے ہی نکالا گیا، مثال کے طور پر، یورپ دو ہولناک عالمی جنگوں سے تباہ ہو گیا تھا، تاہم اس وقت کے رہنماؤں نے مستقبل میں ایسی تباہی سے بچنے کے لیے اپنے اپنے ذہنوں کا اشتراک کیا، لیگ آف نیشنز 1920ء ، اقوام متحدہ 1945ئ اور یورپی یونین 1993ء بعض بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے مکالمے یا بات چیت کی پیداوار ہیں، میگنا کارٹا 1215ء ، ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا 1648ء اور کیتھولک پروٹسٹنٹ ریکنسیلیشن 1541 ء جیسے معاہدے برطانیہ میں استحکام لانے کے لیے کیے گئے تھے، اسی طرح امریکا میں بھی سیاسی بحران کو ہمیشہ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا گیا، سوال یہ ہے کہ ہم یہ راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے؟ بدقسمتی سے دوسرے خودمختار ملکوں کے برعکس پاکستان قومی سطح پر خصوصی مباحثے اور مکالمے کے کلچر کو فروغ نہیں دے سکا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے کئی بڑے مسائل حل نہیں ہوسکے، دراصل سیاسی تقسیم یا پولرائزیشن، سماجی تفریق، انتہا پسندی، نسلی بالادستی اور معاشی تفاوت دیگر بنیادی مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان مسائل کی وجہ سے پاکستان میں آئین کی پامالی، غیر جمہوری رویے اور اقتدار کے لئے دھوکہ دہی معمول بن گیا ہے۔
سیاسی لحاظ سے پاکستان کو اپنے قیام سے ہی بہت سے داخلی مسائل کا سامنا ہے، سیاسی جماعتیں محض ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے، الزام تراشی، بر بھلا کہنے، کھینچا تانی اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، انہیں عام آدمی کے مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ وہ عوام کو ناقابل حصول امیدوں اور پیچیدگیوں میں الجھا رہی ہیں، درحقیقت بے یارو مددگار لوگ غیر سنجیدہ اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہے، پاکستان میں سیاست کو دھوکہ دہی کے طور پر جانا جاتا ہے، سیاستدان خدمت سے زیادہ اپنی شان و شوکت کو ترجیح دیتے ہیں ، بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور مبہم حالات نے عام آدمی کو الجھن کا شکار کر دیا ہے، اسی طرح سماجی تفریق اور ہم آہنگی کا فقدان قومی اتفاق رائے کے قیام میں رکاوٹ ہیں، پاکستانی معاشرے کی سماجی تقسیم نے ملک میں چپقلشوں اور انتشار کو جنم دیا ہے، پاکستان بطور ریاست اور پاکستانی بطور قوم متفقہ سماجی ضابطوں، اقدار اور روایات کو پروان چڑھانے میں ناکام رہے، سماجی تقسیم نے قومی یکجہتی اور خوشحالی کے عمل پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں، ملک میں98 فیصد لوگ ابھی تک اقتدار میںشراکت کے نظام سے باہر ہیں، ان کا کردار محض اشرافیہ کیلئے اقتدار کے حصول کے ذریعے تک محدود ہے، معاشرے کی اشرافیہ دانستہ طور پر اقتدار کے لیے سماجی تقسیم کو عروج پر رکھتی ہے، جس سے معاشرے میں بہت سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا منفی اثر پورے ملک پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ موجودہ معاشی بحران نے ریاستی اداروں کو کمزور کیا ہے، طبی، انتظامی اور تعلیمی اداروں کی کارکردگی تنزلی کی کم ترین سطح پر ہےِ، حتیٰ کہ ان اداروں کی معمول کی خدمات بھی ایک خواب بن گئی ہیں، مہنگائی کے باعث عام آدمی اپنی قوت خرید کھو چکا ہے، نہ تو ریاست اور نہ ہی عوام کے پاس معاشی بحران کا کوئی حل موجود ہے، ملک میں سب الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔
بلاشبہ مسائل سنگین نوعیت کے ہیں، ان کو حل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، سماجی، اقتصادی اور سیاسی بحران کے حل کے لیے جامع حکمت عملی اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے، ان مسائل کا ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں موجودہ رکاوٹوں اور مسقتبل کے امکانات کے طور پر جائزہ لینا ہو گا، سماجی، اقتصادی ماہرین، سماجی کارکنوں، سیاسی رہنماؤں، تعلیمی ماہرین، سرکاری حکام، تاجروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے شراکت داروں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، مشترکہ بھلائی کے لیے لاحق خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے معلومات، تجرمات اور دانش کا تبادلہ کرنے کا خصوصی عمل شروع کرنا ہوگا، مختصر یہ کہ سماجی تقسیم، معاشی بحران، سیاسی پولورائزیشن سے صرف و صرف قومی مکالمے کی تلوار کے ساتھ نمٹا جا سکتا ہے، قومی مکالمہ قومی یکجہتی، آئین پرستی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے بھی اشد ضروری ہے، قومی مکالمہ اور دانشمندانہ فیصلے ہی ملک کو بحرانوں سے بچا سکتے ہیں، اس لیے وقت آگیا ہے کہ قومی مکالمے کے ذریعے درپیش مسائل کو حل کیا جائے بصورت دیگر آنے والا وقت مزید کرب اور مشکلات لائے گا۔
(بشکریہ ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ : راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن