گورنر خیبر پختونخوا کا بروقت اقدام

گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے پشاور شہر اور مضافات میں گھریلو صارفین کو گیس کی عدم دستیابی اور کم پریشر سے متعلق عوامی شکایات اور بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے محکمہ سوئی گیس کے حکام کو گورنر ہاؤس طلب کرکے صورتحال پر بریفنگ کے دوران عوام کی پریشانی ختم کرنے کی ہدایات بروقت بھی ہیں اور قابل تحسین بھی’ گورنر صاحب نے کہا ہے کہ عوام کی پریشانی ناقابل برداشت ہے’ گیس کی بوسیدہ پائپ لائنوں کی بدولت گیس لیکج پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے یہ قومی دولت ضائع ہو رہی ہے’ جس کا تدارک بہت ضروری ہے امر واقعہ یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں گزشتہ کئی برس سے قدرتی گیس کے پریشر میں شدید کمی اورعوام کے مسلسل احتجاج کے باوجود سوئی گیس حکام حکومتی اکابرین کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے لالی پاپ تھما رہے ہیں’ گزشتہ سال انہی دنوں میں سوئی گیس حکام نے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ایک اجلاس کے دوران صرف تین دن میں بوسیدہ اور کم قطر کے پائپ تبدیل کرنے کا وعدہ کیا جس کے بعد گیس پریشر نے معمول پر آجانا تھا مگر تین دن’ تین ہفتوں’ تین مہینوں سے بھی آگے بڑھ کر سال پورا ہو گیا ‘ یہاں تک کہ گرمی میں جب گیس کا استعمال انتہائی کم اور صرف کھانے پکانے کی حد تک رہ جاتا ہے’ ان دنوں میں بھی صورتحال معمول پر نہیں آسکی تھی اور سردی والے دنوں کی طرح گھریلو صارفین کو معمول کے پریشر کے مطابق گیس فراہمی ممکن نہیں ہوسکی ‘ دوسری بات یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا جس طرح اپنی ضرورت سے زیادہ پن بجلی پیدا کرتا ہے اسی طرح گیس کے ذخائر سے ملنے والی گیس’ پٹرول وغیرہ بھی سرپلس ہے اور آئین کے مطابق اسے اپنے گیس کے ذخائر سے ترجیحی بنیادوں پر گیس ملنی چاہئے مگر ہمارے صوبے سے حاصل ہونے والی گیس کے لئے بھی عوام ترستے رہتے ہیں جب کہ دیگر صوبوں میں یہی گیس وافر مقدار میں سپلائی کی جاتی ہے ہم جناب گورنر سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس اہم آئینی نکتے پر غور کریں اور صوبے کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے والی پالیسیوں کے حوالے سے وفاق سے رابطہ کرکے ختم کروائیں۔
روس سے سستے تیل کی درآمد
اخباری اطلاعات کے مطابق روس سے سستا خام تیل خریدنے کے لئے پاکستانی وفد ماسکو پہنچ گیا ہے پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد کی قیادت وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کر رہے ہیں’ ذرائع کے مطابق پاکستان اور روس کے درمیان پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن پر کام جلد شروع کرنے سے متعلق بھی بات ہو گی۔ گیس پائپ لائن کراچی سے لاہور تک تعمیر ہونی ہے ۔ جہاں تک روس سے سستے تیل کی خریداری کا تعلق ہے اس کی بازگشت عمران خان کی حکومت کے دوران اس وقت سنائی دی تھی جب روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے عین ابتدائی دنوں میں عمران خان نے روس کا دورہ کیا’ جس پر بڑی لے دے بھی ہوئی تھی اور موجودہ حکومت نے عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اقتدار سنبھالا اورملک میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوا تو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے روسی تیل کے حوالے سے پروپیگنڈہ شروع کرکے حکومت کو مطعون کرنا شروع کر دیا تھا ‘ تاہم بعد میں معلوم ہوا بلکہ خود روسی سفیر نے اس حوالے سے عمران حکومت کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کی نفی کرتے ہوئے صورتحال واضح کی’ اس وقت یہ سوال بھی سامنے آیا تھا کہ روسی خام تیل کی صفائی کے لئے پاکستان کے پاس ریفائنری بھی موجود نہیں’ بلکہ خطے میں صرف بھارت کے پاس ایسی ریفائنری موجود ہے ‘ اور اگر عمران حکومت نے بفرض محال ایسا کوئی معاہدہ کیا بھی ہے تو روسی خام تیل کی صفائی کہاں ہو گی؟ اب جب کہ پاکستانی وفد بالآخر روس سے سستا تیل خریدنے کے حوالے سے معاہدہ کرنے روسی دارالحکومت ماسکو پہنچ گیا ہے تو جو سوال عمران حکومت کے آخری دنوں میں خام تیل کی صفائی کے لئے ریفائنری کی عدم دستیابی کیا حکومت نے تیل کے معاہدے سے پہلے ان سہولیات کی فراہمی کا بندوبست کرلیا ہے؟ یعنی کیا موجودہ ریفائنریز کے لئے جدید سہولیات حاصل کرلی ہیں؟ یا اس خام تیل کو کسی اور ملک لے جا کر ان کو ریفائن کرایا جائے گا’ بہرحال سستا تیل معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس سے ملک میں پٹرولیم کی قیمتیں کم کرنے میں مدد ملے گی۔
سیاسی قائدین کے بارے میں بدگوئی؟
ملکی سیاست میں گالم گلوچ اور ناز یبا ریمارکس کا چلن اب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کسی ایک جماعت یا گروہ کو الزام نہیں دیا جا سکتا بلکہ دیکھا جائے تو اس گندے جوہڑ سے اب سیاسی رہنما بھی جان بچا کر آسانی سے گزر نہیں سکتے’ اس کی ابتداء کب ہوئی اور کس نے کی’ اگرچہ اس حوالے سے وثوق سے کچھ کہنا فضول ہے ‘ تاہم نچلی سطح کے عام سیاسی کارکنوں سے معاملہ اب رہنماؤں تک آگیا ہے ‘ ان دنوں ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت کے قائد کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولز خاصے سرگرم ہیں اور ان پر الزام تراشی کی جارہی ہے’ تاہم محاورے کے مطابق کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتا جہاں سب کچھ صاف ہو کر سامنے آجاتا ہے’ وہ جو کہتے ہیں کہ دوسرے کی جانب ایک انگلی اٹھانے سے تین انگلیاں خود اپنی جانب ہی مڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں’ اس لئے جس رہنما پر اعتراضات کئے جارہے ہیں ان پر ایک عرصے سے بلاوجہ گند اچھالنے پر بھی غور کرنا چاہئے’ اور جس طرح مخالفین اپنے جلسوں’ ریلیوں میں اس لیڈر کو برے برے نام دے کر ہنسی مذاق کا نشانہ بناتے رہے ہیں وہ بھی یقیناً کوئی قابل برداشت رویہ نہیں تھا’ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں کے بوریا پراعتراض کرنے سے پہلے اپنے شال کا ہی احساس کیا جائے اور سیاسی قائدین باہم مشاورت سے ایک سمجھوتہ کر لیں کہ سیاسی مخالفت کو بدزبانی اور بدگوئی سے بچانے کے لئے کن رہنما اصولوں پر عمل کیا جائے تاکہ باہمی احترام کے تقاضے پورے ہوسکیں۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش