جنابِ تقی عثمانی کا بروقت جواب دعوی

کالعدم”اسٹوڈنٹ تحریک پاکستان”کا دعویٰ ہے کہ ہم نے مذاکراتی عمل کے دوران فوج اور ایجنسیوں کی جانب سے اپنے ساتھیوں کے اغوا اور قتل کے واقعات پر بہت صبروتحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ حقیقت واضح ہوتی گئی کہ حکومت مذاکرات کے نام پر فریب دے رہی ہے اس کا مقصد ہماری طاقت کو کمزور کرنا ہے اس دعوے کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اب کھلی جنگ ہوگی، کارکنوں کو اہداف کے حصول کیلئے عام حملوں کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اپنی نئی حکمت عملی کے حوالے سے افغان طالبان کی قیادت کو تفصیل سے آگاہ کردیا ہے۔ بظاہر دعوی اور اعلان دونوں محض جھوٹ کا پلندہ ہی ہیں مسلح جتھے نے رواں برس جون میں جنگ بندی کے خاتمہ کا باضابطہ اعلان کردیا تھا۔ جون سے قبل جنگ بندی کے دوران اس تنظیم کی کارروائیاں اس کے باوجود جاری رہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست پر صدر مملکت نے نہ صرف سنگین جرائم میں سزا یافتہ اس کے بعض ارکان کے ساتھ دوسرے درجنوں افراد کی رہائی کا حکم دیا بلکہ درخواستوں اور احکامات پر اٹھنے والے اعتراض کا جواب دینے اور شہریوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اس عرصہ میں مسلسل صبر کا مظاہرہ کس نے کیا یہ ہر کس و ناکس پر دوچند ہے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ بسا اوقات نہیں بلکہ ہمیشہ غیردانشمندانہ فہم کی بنیاد پر ہوئے تجربات نہ صرف تجربہ کاروں کے بلکہ چار اور کے لوگوں کے بھی گلے پڑتے ہیں اور بعدازاں بھل صفائی بھی مصیبت بن جاتی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی سے پچھلے برس جب کابل مذاکرات کا آغاز ہوا تھا تبھی یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ مسلح جنگجو مذاکرات کے نام پر ایک بار پھر منظم ہونے کے لئے وقت حاصل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کے جو 6مطالبات سامنے آئے ان سے بھی سابق قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بدقسمتی سے اس وقت کی حکومت اور بعض حکام حقائق سے آنکھیں چراکر قوم کو گمراہ کرتے رہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کالعدم تنظیم نے اسی عرصہ کے دوران تین سو سے زائد کارروائیاں بھی کیں جن میں درجنوں شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاران جاں بحق اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ چند دن قبل جنگ بندی کے خاتمے اور عام کارروائیوں کے آغاز کا اعلان کھلے فریب کے سوا کچھ بھی نہیں صرف پچھلے ایک ماہ کے دوران اس تنظیم نے 19سے زائد حملے کئے۔ بدھ کی صبح بھی کوئٹہ میں کئے جانے والے حملے میں متعدد افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں بڑی تعداد قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کی ہے۔ گزشتہ سال بھر میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ ملک کے بعض دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ کالعدم تنظیم نے نہ صرف ان کارروائیوں کااعتراف کیا بلکہ یہ دعوی بھی کیا چونکہ سکیورٹی فورسز نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے جوابی کارروائی کرنا پڑی۔
اب جنگ بندی کے خاتمے اور عام حملوں کے حالیہ اعلان سے یہ لگتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے پیچھے موجود قوتیں بری فوج کی قیادت کی تبدیلی کے مرحلہ میں ان اعلانات کے ذریعے نئی عسکری قیادت پر دبائو بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ کہیں یہ خیال موجزن ہے کہ نئی عسکری قیادت کو معاملات سے آگاہی میں وقت لگے گا جنگجووں کو اس وقت سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے نئی عسکری قیادت انسداد دہشت گردی کے عمل میں شرکت کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اسی بنا پر عوام یہ توقع کررہے ہیں کہ نہ صرف نیشنل ایکشن پلان پر ازسرنو عمل کی حکمت عملی اپنائی جائے گی بلکہ ماضی کے کچھ غلط فیصلوں پر نظرثانی کرکے دہشت گردی اور شدت پسندی کے مکمل خاتمے کے لئے عسکری و سیاسی قیادت کامل اتفاق رائے سے اگلا قدم اٹھائے گی۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر شدت پسند اپنی خو بدلنے پر آمادہ نہیں تو ریاست کو بھی کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بندوق کی طاقت سے ریاست کو جھکانے اور شریعت کے من پسند مفہوم کو مسلط کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو نفاذ اسلام کی جدوجہد قرار دینے کے غلط دعوے پر ملک کے ایک بڑے عالم دین مولانا تقی عثمانی نے دوٹوک موقف کا اظہار کیا ان کا کہنا ہے کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے نفاذ شریعت کی باتیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کالعدم تنظیم اپنے6ابتدائی مطالبات میں سے ایک آدھ کے علاوہ دیگر کے تسلیم نہ کئے جانے پر فرسٹریشن کا شکار ہے۔ جنگ بندی کے خاتمہ کے اعلان کا ڈھکوسلہ اور عام حملوں کا حکم اسی فرسٹریشن کا نتیجہ ہے۔ اس مرحلہ پر حکومت، سکیورٹی فورسز اور عوام متحد ہوکر ہی دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ حکومت، سکیورٹی فورسز اور عوام تینوں کو یہ حقیقت بہرطور مدنظر رکھنا ہوگی کہ مسلح تنظیم کا مقصد نفاذ اسلام ہرگز نہیں بلکہ یہ اپنے بیرونی آقائوں کے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے۔ پاکستان میں درجنوں چھوٹی بڑی دینی جماعتیں نفاذ اسلام کی اپنی جدوجہد کو پرامن جمہوری انداز میں عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نفاذ اسلام کے لئے مسلح جدوجہد ناگزیر ہوتی تو یہ دینی جماعتیں جمہوری جدوجہد کی بجائے مسلح جتھوں کے ساتھ کھڑی ہوتیں لیکن دینی و سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران نے نہ صرف دہشت گردی کو اسلامی تعلیمات سے انحراف قرار دیا بلکہ اسے ریاستی قانون سے متصادم قرار دیتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو جمہوری جدوجہد کے راستے پر چلایا۔ دینی و سیاسی جماعتوں کے اس انداز فکر کی وجہ سے ہی عسکریت پسندی کی راہ پر گامزن مسلح جتھوں کو محدود پذیرائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مسلح جتھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے آڑے آنے والے بزرگ علما کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ مفتی مولانا حسن جان شہید، مولانا سرفراز حسین نعیمی شہید اور مولانا مرزا یوسف حسن شہید اپنے اپنے مکتب فکر میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے تھے۔ ان بزرگ علما کی قربانیوں نے پاکستانی عوام میں دہشت گردی کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا کیا۔ اب بھی ہمیں امید ہے کہ حکومت، سکیورٹی فورسز اور عوام متحد ہوکر مسلح جتھے کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''