یہ گلستان ہے نہ اس کو قفس میں کرتبدیل

مثل ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیر ی کون سی کل سیدھی ، جب سے تخت اسلام آبا د سے اتاردئیے گئے تب سے ایک ہی بگاڑ کا رخ کیے ہوئے تھے اور مسلسل کو سنا پڑا ہو ا تھاکہ ان کو بچا کیوں نہیں گیا کبھی عدالیہ ہری بھری ہو جایا کرتی تھی اور کبھی سوکھے کانٹوں کی طرح چبھنے لگتی تھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا رخ منز ل کیا ہے ویسے یہ سارے جتن حصول اقتدا رکی چو سر پربیٹھنے کے لیے ہی تھے ، پی ٹی آئی کے پاس ایک نا بغہ روز گار تونہیں ایک ان مو ل ہیرا ضرور ہے جو فواد چودھری کی صورت پی ٹی آئی کی انگھوٹی میں جڑ ا ہوا ہے ، گزشتہ روز فرما یا کہ پی ٹی آئی کے چئیر مین اور صدر صاحب پریہ بات واضح ہے کہ نئی فوجی استیبلشمنٹ اور آرمی چیف پر تنقید نہیں کی ہو گی انھوں نے کہا کہ ادارے کے ساتھ لڑائی نہیں ہو سکتی ، وہ دور کی یہ کو ڑی بھی لائے کہ آخر پی ٹی آئی کیوں جنرل عاصم منیر پر تنقید کرے جبکہ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمر ان خان نے خود ان کے تقرر میں مدد دی ، یقین کیجئے فواد چودھر ی کا یہ کہنا رواں صدی کا سب سے انوکھا اور بڑا انکشاف ہے فوادچودھر ی نے اپنی پریس کا نفرنس میں اس امید کا اظہا ر بھی کیا کہ نئے آرمی چیف نئی پالیسیا ں دیں گے اور پی ٹی آئی کو یہ آس ہے جو کچھ جنرل باجوہ کے آخری دور میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا وہ اب نہیں ہو گا چلیں پہلے گزشتہ آٹھ ما ہ کے عرصہ میں کیا ہو ا اس کا جائز ہ لے لیتے ہیں پہلی مرتبہ عوام کے سامنے یہ پالیسی آئی کہ اسٹبلیشمنٹ نے انتظامی امو ر اور سیا ست میں غیر جا نبدار کردارادا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ اس پر روبہ عمل ہو تی نظر بھی آئی دوسری جانب عمر ان خان غیر جانبدارکو کیا نام دیتے رہے اس کا ذکر ہنوز دہر انا بہتر نہیںہے پوراپاکستان جانتا ہے ۔تاہم فواد چودھری کی پریس کانفرنس سے یہ احساس ہوتاہے کہ وہ اب بھی نہیں چاہتے کہ اسٹبلشمنٹ غیرجانبدار رہے کیوں عمر ان خان کے خلاف تحریک عدم اعتما د سے لے کر مو جو دہ وقت میں بھی اسٹبلشمنٹ غٰیرجانبدار رہی ہے ، جو پی ٹی آئی کو بہت کھل رہی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ گزرے آٹھ نو ما ہ والا زمانہ پلٹ آئے حالا ں کہ مونس الہی نے عمر ان خان کے لیے دریا ؤں اور سمندر کا رخ موڑنے والے انکشافات کر کے سارا کھیل عیاں کر دیا ہے ، ویسے اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ پی ٹی آئی دنیا کی وہ واحد جمہوری سیا سی جما عت ہے جو فوجی اسٹبلشمنٹ کے کندھو ںپر سوا ر ہو کر حکمر انی کے خواب پور ے کرنے مزے لیتی رہی ہے اور مزے لینا چاہتی ہے ورنہ فوجی اسٹبلشمنٹ دنیا میں کہیں بھی جمہوری کردار میں نظر نہیں آئی ہے ، عمر ان خان کے بارے میںیہ تاثر بھی غلط ہے کہ ان کی سیا سی اٹھان 2014سے ہوئی ایسا نہیں ہے ، حقائق یہ بتاتے ہیںکہ جب پرویز مشرف کے دور میں سیا سی و جمہوری قوتو ں نے یہ احساس کر لیا کہ حقیقی جمہو ری نظام اسی وقت آسکتا ہے جب ملک سے اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے دروازے بند کر دئیے جائیں ، اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ملک کی بڑی سیا سی قوتیں اس امر پر اتفاق کرلیں کہ آج کے بعد کوئی سیا سی قوت اسٹبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ نہیں بنے گی ۔تقریباًدو صدی پہلے محترمہ میر ی شیلے نے فرینک اسٹائن نام سے ایک ناول تحریر کیا تھاجو دنیامیںبہت مقبول ہو ا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک سائنس دان نے ایک ایسا انسان تخلیق کیا جس کو فلا ح وبہبود ، حکمت و دانائی
کا مجسم بننا تھا لیکن جب وہ انسان مکمل ہو گیا تو اس میں وحشیا نہ عفریت اور دہشت ناکی عود کر آئی کچھ ایسی ہی پاکستانی سیا ست کی روح فرسا کہا نی ہے ،بات مختصر یہ ہے کہ جب عمر ان خان نے سیا ست میں قدم رکھا تو وہ کر کٹ کے ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتا ل کے حبہ میں ایک قد آور شخصیت اور نیک سعید شہر ت کے کوہ ہما لیہ تھے تاہم جیسے ہی پی ٹی آئی بنیا د رکھی اور اس کے فوراًانتخابات میں قدم رکھ ما را جس کا نتیجہ ایسا نکلا کہ یہ اندیشہ پیدا ہو ا کہ مقبولیت کا وہ گراف نہیں تھا جس کی سوچ نے ان کو سیاست دان بنایا ، اس وقت تواور ہی پارٹیا ں میدان عمل میں تھیں جنہو ں نے دومحوری سیاست کو جنم دے رکھا تھا ان میں ایک مسلم لیگ ن اور دوسری پی پی ، جب پر ویز مشر ف نے مسلم لیگ ن کی دوتہائی اکثریتی جمہو ری حکومت کا تختہ بزور قوت الٹ دیا تو اس وقت دونو ں جما عتوں کو عقل آئی کہ اسٹبلشمنٹ کا کھیل جمہوری پارٹی کے لیے کسی طور سو د مند نہیں ہے اس نتیجے پر پہنچنے
کے بعد بے نظیر بھٹومر حومہ اور نو ازشریف نے جان چھڑانے کی غرض سے ایک میشاق جمہو ریت کا معاہدہ کیا ، تب اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو ہو ش آیا کہ کھیل ان کے ہا تھ سے نکل جائے گا چنانچہ انھو ں نے متبادل کے طورپر تلا ش کر لی یہا ں سے پی ٹی آئی کی مقبولیت اوج ثریا پرجا پہنچی ، حالاں کہ جب مشرف کے دور میںجتنے بھی انتخابات ہوئے اس میں پی ٹی آئی کی شہرت اورمقبولیت دھندلی رہی علا وہ ازیں میثاق جمہوریت کے بعد جب پی پی برسراقتدار آئی تو مسلم لیگ ن شریک اقتدار ہوئی مگر ہو اوہی جو مخفی قوتوں کو وتیر ہ ہو ا کرتا ہے لڑاؤ اور حکومت کر و ، چنانچہ مسلم لیگ ن اور میثاق جمہو ریت کے روبہ عمل ہونے کے امکانات نے تیسر ی قوت کی جہت کھولی اور پی ٹی آئی کے لیے میدان صاف کر ادیا گیا مگر ہو ا وہی جو فرینک اسٹئن کے نا ول کے کیمیائی انسان کے کرادار کی خصلت میں عود کر گیا ، فواد چودھری کا یہ ارشاد نیک ہے اگر صبح کا بھولا شام کو گھر لو ٹ آئے تو وہ بھولا نہیں کہلا تا مگر بھولاپلٹ تو آئے ابھی چند روز قبل فواد چودھری نے عدلیہ کو اس کے کردار کے بارے میں کھٹے اور چٹخارے انداز میں یا د دہا نی کرائی تھی اب وہ فرما رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ
سے اچھے تعلقات بنا نا چاہتی ہے ،پہلے قوم کو تو بتائیں کہ پی ٹی آئی کے ان دونو ں قومی اورآئینی اداروں سے بگاڑ کب پید اہو ا اور کیوں ہو ا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ عمر ان خان کی حکومت کو ختم کر نے لیے سیاسی جما عتوں نے مکمل آئینی راستہ اختیا ر کیا ، اور حکومت کا خاتمہ بالخیر آئینی و قانونی طو رپر ہوا ، جن کے بارے میں خان ارشاد کر رہے ہیںکہ انھو ں نے ان کی حکومت کو کیو ں نہیں بچایا اگر وہ یہ کر دار ادا کرتے تو وہ کلی طو رپر غیر آئینی ہوتا ، جیسا کہ ماضی میں اکثریت کو اقلیت میںتبدیل کیا جا تا رہا ہے فواد چودھر ی یہ بھی فرما رہے ہیں کہ اگر 20دسمبر تک اتخابات کا اعلان نہیںکیا گیا تو عمر ان خان اسمبلیا ںتو ڑ دیںگے ،اسمبلیاں توڑنے کا اختیار خان صاحب کو کب سے ہو گیا ہے اسمبلی توڑ نے کا فیصلہ تو صوبے کے وزراء اعلیٰ کے پا س ہے وہ یہ اختیار بھی کسی آئینی یا قانونی جو ا ز پر استعمال کر سکتے ہیں جس کا آئین میں ذکر ہے کسی فرد واحد کی خواہش پر نہیں کرسکتے پھر باجو ہ کے بارے میں جو آئینہ مو نس الہی اور پر ویزالہی نے پی ٹی آئی کو دکھا یا ہے اس نے خان صاحب کے تما م بیانیہ کا کچومرنکال دیاہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا