تاتا تھیّہ تاتھیّہ

یو ں لگ رہا ہے کہ سیا ست خزاںکی پت جھڑ بھی ہو نے والی ہے ساتھ ہی بہارکی کلیا ں بھی چٹخنے والی ہیں ۔ بند کمرے کی یخ بستہ ہوائیں گرم ہونا چاہتی ہیں وزیر اعلیٰ پنجا ب نے پالا گرم کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ زمان پارک اور بنی گلہ میں پالا پڑتا جا رہا ہے، ہو ا کچھ یوں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی خیال احمد کاسترو کو وزیر اعلیٰ پنجا ب پرویز الٰہی نے حلف برداری کے بعد وزرات کی چوکی پر براجما ن کر دیا، تاہم ہنو ز وہ وزیر بے محکمہ ہی ہو ں گے بقول فواد چودھری کہ عمر ان خان دسمبر کے تیسرے عشرے میں اسمبلیاں تو ڑ دیں گے، تو گویا خیال احمد کا سترو کی مسند نشینی صرف دس روزہ رہے گی، وہ جو کسی نے کہا ہے کہ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گر تا ہے ، بات سمجھ آ گئی ہوگی کہ اسمبلیاں ٹوٹنے نہیں جا رہی ہیں پھر بھی جو اب بھی یو ٹرن کے معنی نہیں سمجھ پایا تو پھر اس پر یہ کہاوت ہی صادق آتی ہے کہ بنیے سے سیانا سو دیو انہ ، ان اسمبلیوں کی کشمکش میں دونو ں جانب سے وار بیٹھانے کا زور لگا ہوا ہے ، کہتے ہیںکہ میدان میںشہسوار ہی گرتا ہے مگر یہا ں تو سبھی سوار ہی سوار ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ دو لڑتے ہیں تو ایک گرتا ہے، خیال احمد کاسترو کے حلف وزارت اٹھانے سے بات چٹ صاف کر دی گئی ہے کہ اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی، اگر عمر ان خان کی مر ضی و منشا سے ہٹ کر خیا ل احمد کاسترو دارالشکوہ بن بیٹھے اگر ایسا ہوتا تو وہ اس وقت وزارت کا قلمدان سنبھالے بیٹھے ہونے کی بجائے فیصل واوڈا کے ہم رکا ب ہوتے پھر پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب خیال احمد کاسترو حلف اٹھانے کی خوشخبری لے کہ دربار عالیہ زمان پارک پہنچے اور آشیر باد چاہی تو کپتان نے اپنے بارہویںکھلا ڑی کے سر پر ہاتھ پھیر تے ہوئے صرف یہ بول بولے کہ وہ تو سمجھے تھے کہ کسی محکمہ کی سربراہی سونپی جا ئے گی یہاں تو وزارت مل گئی، تمہار ے حلف نے ان کے بیا نیہ کا بھٹہ بیٹھا دیا چلو خیر، اسی چلو خیر میں ہی خیر نکل رہی ہے سمجھنے والے سمجھ گئے جو نا سمجھے وہ اناڑی ہے ، یہا ںیہ بھی یا د رکھنے کی بات ہے کہ گزشتہ روز ہی خان نے ارشاد کیا تھا کہ ان کی پارٹی کے لوگ بھی اسمبلیاں توڑ نے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، بہر حال عمران خان کی سیاست کا محور یہی رہا ہے کہ وہ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں، چنانچہ انہوں نے جب ازخود ایک مطلق عنان انسان کے طور پر اعلا ن کر دیا کہ وہ اس نظام کا حصہ نہیں رہ سکتے اورصوبائی اسمبلیو ں سے جا رہے ہیں یہ مسلم لیگ ق کے لیے ایک بہت بڑ ا دھچکا تھا، اتنا اہم اعلا ن کپتان نے اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورہ کئے بغیر کردیا یہ سمجھے بغیر کہ کرکٹ کے میدان اور سیا سی میدان میںواضح فرق ہے، اسی لیے پرویزالہی کچھ اکھڑ ے ہوئے ہیں، مسلم لیگ ق کا مؤ قف اپنی جگہ درست ہے دوسرا ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمر ان خان نے اسمبلیوں سے اخراج کی وجہ بتائی ہے کہ یہ نظام درست نہیں ہے اس لیے وہ اس سے جدا ہو رہے ہیں مگر کیا اسمبلیوں کے ٹو ٹ جانے کہ بات کوئی نیا نظام از خود وارد ہوجائے گا، ظاہر ہے کہ ضمنی انتخابات ہوں گے اور پھر انہی اسمبلیوں میں لوٹ کر آنا ہوگا، جب کہ ملک کی معیشت ناک نتھنو ں پر آ پڑی ہے کسی بھی وقت ٹپک سکتی ہے اس پر قومی دولت کے اربوں روپے لوٹا دیئے جائیں وہ بھی ایک فرد واحد کی خواہش پر یہ کو نسی عقل مندی ہے۔ چنانچہ ایسے گھمبیر سوالا ت کی بناء پر سیا ست کے قدم چاپ تال اور تین تال پر تھرک رہے ہیں، تازہ ترین خبر یہ ملی ہے کہ مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کے درمیا ن برف پگل رہی ہے ، پی پی کے سربراہ آصف زرداری اور شجا عت حسین کی کاوشیں رنگ لا نے لگی ہیں یہ ممکن ہے کہ یہ کالم زیر مطالعہ ہو اور خبر آجائے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور پنجا ب کے وزیراعلیٰ پرویز الہی کی ملا قات ہوگئی ہے، ملا قات کا مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف اور پر ویز الٰہی دونوں اس امر کے خواہش مند ہیں کہ ملا قات باقاعدہ شیڈول کے طور پر نہ ہو بلکہ کہیں یا کسی مقام پر دونوں کی مڈ بھیڑ ہو جائے اور یہ مڈ بھیڑ قوس قزح کے رنگ بھر دے ، ذرائع یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جا چکی ہے کہ حمزہ شریف آئندہ مدت میںوزیر اعلیٰ نہیںہوں گے ، ادھر یہ بھی زور دیا جا رہا ہے کہ پر ویز الٰہی کی بجائے مسلم لیگ ق کسی دوسرے کو وزیراعلیٰ نا مزد کردے ، اس سلسلے میں پرویزالٰہی کے پرانے سنگی اور شجاعت حسین کے ہم نشین طارق چیمہ اہم کردار اداکر رہے ہیں، اس سیاسی ہما ہمی میں کپتان نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں کیوں کہ دس روز کے لیے کسی کو وزارت نشین بنانے کی کوئی تک بھی نہیں، پارٹی میںایساکوئی بھونچال بھی نہیں، خیال احمد کاسترو کو پنجاب کابینہ کا جھلمل ستارہ بنا دینا ناگزیر ہو چکا تھا، خیال احمد بھی عثمان بزدار کی طرح پی ٹی آئی کے لیڈر بتائے جا تے ہیں، صدر صاحب تو اس وقت مفاہمت کے مشن کی تکمیل میں مگن ہیں، ظاہر ہے کہ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے ان کاجھکاؤ کپتان کی طرف ہی نظر آیا ہے ، حتٰی کہ انہوں نے آرمی چیف کی تقرری پر بھی کپتان سے مشاورت کی جس کا انہو ں نے اقرار اپنے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں بھی کیا چنانچہ مفاہمت کی یہ سعی بھی عمران خان کی مشاورت سے نتھی ہی ہوگی، اگر سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ کپتان اپنے تمام سابقہ مطالبات میں سرخرو نہ ہونے کے بعد سے صرف نئے انتخابات کی بانسری بجا رہے ہیں، اربوں روپے جھونکنے کے بعد وقت سے پہلے نئے انتخابات کپتان کی خواہش کے مطابق ہو بھی جائیں تو کیا کپتان قوم کو بتا سکیں گے اس سے کیا تبدیلی آئے گی، کیا پٹرول کی قیمتیں گر جائیں گی؟ آلو پیا ز اور ٹماٹر کے بھاؤ پرانے استھان پر آجائیں گے ، اقتدارمیںآنے سے پہلے تو ان کا ادعا یہ تھا کہ وہ دوسو سے زیا دہ کی ماہرین معیشت کی جماعت رکھتے ہیں، اقتدار میںجب آئے توکمین گاہ ایک بھی تیر انداز نہیں پایاگیا بلکہ معیشت کے ماہرین کی صورت بدل بدل دی جاتی رہی اور معیشت کی حالت وہی ڈھاک کے تین پات رہی، اب وہ کیا تبدیلی لے آئیں گے نہ تو باجوہ رہے نہ فیض اٹھانے کے لیے ان کی بغل میں حامد و حمید رہے۔ جبکہ گزشتہ ضمنی انتخابات میں جو حصہ لیا تھا اس کے اخراجات کے گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں صرف چارسدہ کے حلقے کے اخراجات کے گو شوار ے جمع کرائے ہیں وہ بھی چند دن کی تاخیر سے، چنانچہ اس عمل کی وجہ سے ان کے سر پر نااہلی کی ایک اور تلوار لٹک گئی ہے، علا وہ ازیں اس امر کا اندیشہ بھی ہے کہ اخراجات کا حساب کتاب جمع کرانے کے بعد ان اخراجا ت کی آمدنی کا بھی حساب دینا پڑ سکتا ہے بحثیت وزیراعظم ان کی تنخواہ آٹھ لا کھ روپے تھی، وہ بھی انہو ں نے دولا کھ روپے سے بڑھوائی تھی ۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے