arif bahar 7

کورونا متاثرین اور ناروا معاشرتی روئیے

کورونا ایک عالمگیر وبا ہے جس نے کرۂ ارض پر خوف اور دہشت کی ایک چادر تان لی ہے۔ اس چادر تلے کیا ہورہا ہے حقیقی طور پر کسی کو اندازہ نہیں۔ کورونا کی اذیت ناک زندگی اور کربناک موت کیساتھ جو کہانیاں وابستہ ہیں اس نے اس مرض کو جسمانی کیساتھ ساتھ ایک نفسیاتی عارضہ بنا ڈالا ہے۔ جسمانی عارضے کی قیمت تو وہ مریض چکاتا ہے جو اس کا شکار ہو مگر اس کے نفسیاتی اثرات بالخصوص مریض کے اہل خانہ اور بالعموم پورے سماج پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کورونا کے مریض سے خوف کھانا اور دور بھاگنا تو کسی حد تک سمجھ آتا ہے کہ اس بیماری سے خوفناک تصور وابستہ ہوکر رہ گیا ہے مگر ہمارے ہاں جس شخص پر کورونا وائرس کا شکار ہونے کا شبہ بھی ہوتا ہے معاشرہ نہ صرف اس سے بلکہ اس کے اہل خانہ سے یوں ناراض اور نالاں ہوتا ہے گویا کہ اس نے معاشرے پر ذاتی حیثیت میں کوئی ظلم ڈھایا ہو۔ اس معاشرتی روئیے کیلئے صرف کسی پر مریض ہونے کا شک ہونا ہی کافی ہوتا ہے پھر لوگ نہ صرف مریض سے بلکہ اس کے عزیر واقارب سے بھی دامن بچاتے اور نظریں چراتے ہیں حالانکہ دنیا کے ہر مرض کی طرح یہ خود اختیاری نہیں قدرت کی طرف سے ایک آزمائش ہے جس پر انسان کا اپنا اختیار نہیں ہوتا۔ معاشرے کا ایسے مریض سے نفرت آمیز رویہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب سے کورونا کی وبا عام ہوئی ہے ملک کے طول وعرض میں عمومی طور پر یہ رویہ دیکھا گیا ہے۔ کورونا کے مشتبہ افراد اور مریضوں کیلئے قرنطینہ سینٹر بنانے کیخلاف مختلف علاقوں میں احتجاج بھی کیا جاتا رہا اور اب بھی مختلف مقامات پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ جن علاقوں میں قرنطینہ بنانے پر عوامی حلقوں نے شدید احتجاج کیا وہاں اسے عوام کی صحت خطرے میں ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔ کئی مقامات پر تو قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کی جانوں کو بھی عوامی اشتعال کے باعث خطرات لاحق ہوئے۔ اس احتجاج کا انداز کورونا کی بیماری سے زیادہ اذیت ناک اور اس عارضے سے بڑا مرض ہے جس کا تعلق دل اور ذہن کی سختی اور انسانیت کے احساس سے عاری ہونے سے ہے۔ جس معاشرے میں ابتلا وآزمائش کا شکار لوگوں سے ہمدردی کی بجائے نفرت کے جذبات اُمڈ پڑیں اس معاشرے کو اخلاقی طور پر کھوکھلا ہی سمجھنا چاہئے گویا کہ وہ معاشرہ اپنی اصل روح گنوا کر زندہ لاشوں کا قبرستان بن گیا ہے۔ یہ سماجی روایات اور انسانی اقدار اور دین مبین کی تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔ ایک دوست سوشل میڈیا پر انہی رویوں کی بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان کے علاقے میں کورونا کا پہلا مبینہ کیس سامنے آیا تو یہ معاشرے کا ایک باعزت کردار تھا۔ اٹھارہویں گریڈ میں ریٹائر ہونے والا ماہر تعلیم جو گردوں اور دل کے عارضے کے باعث ہسپتال میں داخل تھا، اچانک اس شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی خبر سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو اس کے بعد وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ خدا کی پناہ۔ کورونا متاثر ہونے کی خبر پھیلتے ہی اس مریض کے عزیز رشتہ دار ہی نہیں علاقے کے لوگ اس طرح مجرم بنا دئیے گئے کہ وہ کئی روز تک منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر مریض کی تصویریں زہرآلود تبصروں کیساتھ دینی فریضہ سمجھ کو یوں پھیلائی جانے لگیں کہ مریض سے ہمدردی کی بجائے نفرت اور غصہ کے جذبات وابستہ ہونے لگے۔ یوں لگ رہا تھا کہ مریض نے جان بوجھ کر خود کو کورونا کا شکار کیا اور پھر وہ اپنا ٹیسٹ نہ ہونے کا ذمہ دار بھی خود ہے اور اس نے جان بوجھ کر یہ مرض دوسروں کو منتقل کرنے کیلئے ہسپتال میں ڈیرہ جمایا ہے۔ یہ تو خیریت گزری کہ ابتدائی دنوں میں ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ معاملہ کچھ مشکوک ہے جس کے بعد مریض کی جاں بخشی ہوئی اور اب یہ مریض صحت یاب ہو کر گھر جا چکا ہے۔ یہ جاہلانہ روئیے ہمارے قومی اور مجموعی مزاج کا حصہ ہی نہیں بنے بلکہ مجموعی مزاج پر غالب آچکے ہیں۔ کورونا نے جہاں انسانوںکو بہت سی غیرضروری رسوم اور عادات کو ترک کرنے پر مجبور کیا وہیں اس جاہلانہ روئیے میں بھی تبدیلی آئے تو خوش آئند بات ہوگی۔ ہمارا ایمان ہے کہ انسان کو پیش آنے والی ہر آزمائش اور مشکل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ بھی ابدی سچائی ہے کہ آج اگر کوئی آزمائش کا شکار ہے کل دوسرا اس زد میں آسکتا ہے۔ مصائب وآلام گھر گھر نگرنگر گھومنے والا خوانچہ فروش ہیں جو اس لمحے ایک در پر تو اگلے لمحے کسی اور در پر آوازیں کستا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے ”تلک الایامُ نُداوِلُھَا بَینَ النَّاس” انسانوں کے درمیان دنوں کا اُلٹ پھیر اسی کو کہتے ہیں کہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس لئے ہمیں اجتماعی طور پر اپنے کردار کے آئینے میں چال ڈھال اور نین نقش کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے۔ اپنا چہرہ اور اپنا مستقبل سامنے رکھ کر ہمیں اپنی ان معاشرتی رویوں اور عادات کو ترتیب دینا چاہئے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نامی وہ جرمن خاتون ہمارے معاشرے میں کل تک موجود تھیں جو اپنی بھری پڑی زندگی چھوڑ کر پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج کیلئے آکر بیٹھ گئیں تھیں۔ اس دور میں کوڑھ کو ایک چھوتی اور خوفناک مرض گردانا جاتا تھا اور لوگ اس سے کورونا کی ہی طرح خوف محسوس کرتے تھے مگر یہ خاتون ہر قسم کے خوف کو جھٹک کر پاکستان آئیں اور پھر پوری زندگی یہیں گزار دی مگر وہ کوڑھ کا شکار ہوئے بغیر طبی موت مرگئی اور اسی ملک کی مٹی کا رزق ہو گئیں۔ ہم انسانیت سے محبت اور ہمدردی کے ان چلتے پھرتے کرداروں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری ''