کاش یہ فیصلے وعدہ فردا نہ ہوں

قومی سلامتی کمیٹی کے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے راست اقدام پر اتفاق رائے کے ساتھ نیکٹا کو فعال بنانے، صوبوں سے کوآرڈی نیشن کو مزید بہتر بنانے پر زور دینے کے ساتھ اس امر کا بھی اظہار کیا گیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ذرائع اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ پر اہم فیصلوں کی بھی منظوری دی۔ اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہوں کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کاکہنا تھا کہ دہشت گردوں سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ ملکی سلامتی اور رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی جائے گی۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے حوالے سے وزیراعظم اور آرمی چیف کی گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں بھی تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا تھا اس ملاقات میں ہی قومی سلامتی کمیٹی کا فوری اجلاس بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جمعہ کی دوپہر منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے عوامی امنگوں کی ترجمانی ہی ہیں۔ اب اگلا مرحلہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کا ہے یقینا اس مرحلہ میں تساہل نہیں برتا جائے گا۔ مٹھی بھر دہشت گردوں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اسی ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قائم کئے جانے والے امن کو تباہ کردیں۔ اس امر کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی مسلح گروہ محض اپنی منہ زور طاقت اور جنون کے بل بوتے پر ایک ریاست کو احکامات جاری کرنے لگے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ملکی دستور سے ماورا مطالبات تسلیم کرلئے جائیں۔ پچھلے چار عشروں اور بالخصوص9/11کے بعد دہشت گردی کی وجہ سے جو جانی و مالی نقصان ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ افسوس کہ ایک شکست یافتہ جتھے سے محض چند افراد کی خواہش پر کابل مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ ان مذاکرات کے آغاز پر پارلیمان کو اعتماد میں نہ لینا بہت بڑی غلطی تھی۔ اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھاکہ آخر ایسی کون سی مجبوری تھی کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی بدولت افغانستان کی طرف بھاگ جانے والے دہشت گردوں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں کی جارہی ہیں اور یہ کہ امریکہ اور اتحادیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں اقتدار سنبھالنے والے افغان طالبان کی فرمائش پر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیوں کئے جارہے ہیں؟ افسوس کہ اس وقت کی حکومت کے ذمہ داروں نے نہ صرف یہ کہ ان سوالات کے جواب نہیں دیئے بلکہ کابل مذاکرات میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے رکھے گئے 6میں سے2مطالبات اہم کمانڈروں سمیت بعض دہشت گردوں کی رہائی اور معاوضہ کا ایک حصہ ادا کرنے کی بات مان لی گئی۔ ان دو مطالبات کے تسلیم کئے جانے سے ٹی ٹی پی اوراس کے ہم خیال جتھوں کو حوصلہ ملا اور دہشت گردوں کے گروپوں نے ایک جانب مذاکرات کا سوانگ جاری رکھا دوسری طرف موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان حکومت کے تعاون سے خود کو منظم کیا۔ اسی عرصہ میں پاک افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑنے کے ساتھ بعض افسوسناک واقعات بھی رونما ہوئے۔
افسوس صد افسوس کہ باڑ اکھاڑنے اور دوسرے افسوسناک واقعات میں افغان حکام کا تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہ ہونے کے باوجود مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ چند ماہ قبل سوات کے علاقے مٹہ میں آنے والے ٹی ٹی پی کے مسلح افراد نے ابتدائی طور پر جو کارروائیاں کیں اور جس طرح ایک ہفتہ کے دوران21کروڑ روپے بھتہ وصول کیا اس پر متعلقہ حکام کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں تھیں مگر اس موقع پر پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں جن میں 2سابق وفاقی وزیر بھی شامل ہیں، نے دہشت گردوں کی آمد بھتہ خوری اور مختلف محکموں کے افراد کے اغوا پر صوبائی حکومت کی نااہلی و ناکامی کو چھپانے کے لئے حساس اداروں کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کردی جبکہ اصولی طور پر یہ بتایا جانا چاہیے تھا کہ صوبائی حکومت کے سربراہ کے خاندان اور دیگر افراد نے کروڑوں روپے بھتہ کیوں دیا اور یہ کہ خیبر پختونخوا حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی سے اجتناب کیوں برتا۔ سوات کے واقعات سے بہت پہلے گزشتہ ماہ رمضان المبارک میں پشاور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خودکش حملے کے بعد بھی صوبائی حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ یہ پردہ پوشی کیوں اور کس مقصد کے لئے کی گئی یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔ جمعہ کی دوپہر منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی سلامتی کے تحفظ اور ریاستی رٹ کو برقرار رکھنے کے لئے جس عزم کا اظہار کیا گیا وہ خوش آئند ہے۔ بلاشبہ ضرورت اس امر کی ہی ہے کہ مختلف الخیال دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کے لئے یکساں پالیسی اپنائی جائے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات یقینا اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہوگی کہ کابل مذاکرات کا نفع کیا ہوا اور نقصان کتنا ہوا۔ یہ بھی کہ مخصوص فکر کے حامل یہ عناصر کسی کے دوست نہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ کابل مذاکرات محض وقت حاصل کرنے کا بہانہ تھا تاکہ منظم ہوا جاسکے۔ ہماری دانست میں دہشت گردوں کے خلاف قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق کارروائی کے ساتھ اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران کن لوگوں نے بھتہ خوری کی پرچیوں پر رقم کی وصولی کے لئے کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے معاونت کی یہ بھی کہ جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلی کا خاندان ہی بھتہ دینے میں عافیت محسوس کرتا تھا تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا۔ یہ امر بھی اپنی جگہ درست ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس والے دن خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کو یہ بیان دینے کی کیا ضرورت تھی کہ دہشت گردوں کو ہم نہیں لائے۔ یہ تو چور کی داڑھی میں تنکے والی بات ہی ہوئی۔ امید کی جانی چاہیے کہ بیرسٹر سیف کے اس بیان کے پس منظر اور بعض معاملات کی تحقیقات کرالی جائیں گی۔ ہمیں امید ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے محض وعدہ فردا ثابت نہیں ہوں گے بلکہ ان پر حقیقی معنوں میں عمل بھی ہوگا۔

مزید پڑھیں:  چار مارشل لاؤں اور شخصی انانیت کے نتائج