ہے فیصلہ خود باعثِ توہینِ عدالت

یادش بخیر،ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں سیاست میں پہلی بار لندن پلان کا تذکرہ سامنے آیا تھا،یہ سابق آمر(خود ساختہ فیلڈ مارشل) ایوب خان کا دور تھا اور اس کی حکومت کی جانب سے اس زمانے میں بعض سیاسی رہنمائوں جن میں ممتاز محمد خان دوستانہ، سردار شوکت حیات، خان عبدالولی خان اور دیگر اہم رہنماء شامل تھے،پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ لندن میں اکٹھے ہوئے تھے اور ایوب حکومت کو گرانے کی سازش تیار کی تھی، اس کے بعد لندن پلان کی ترکیب ”چل سو چل ” والی کیفیت ہو گئی تھی اور مختلف ادوار میں جب بھی کچھ سیاسی رہنما لندن میں اکٹھے ہوتے(خواہ ان کے درمیان ملاقاتیں ہوں یا نہ ہوں) ” حاضر سروس ” یعنی برسر اقتدار جماعت نے ان لوگوں کی موجودگی کو لندن پلان کا نام دیکر اس کے اندر سے کسی نہ کسی سازش کے تانے بانے ضرور تلاش کئے، البتہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف اور دیگر اہم سیاسی جماعتوں نے برملا لندن میں باقاعدہ اور اعلانیہ ملاقاتیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلوا کر میثاق جمہوریت کے نام پر ملک کے اندر مشرف حکومت کے خلاف جمہوری سیاسی جدوجہد کرنے کا ڈول ڈالا، تو اسے کسی باقاعدہ سازش سے تعبیر کرنے میں جنرل مشرف کی حکومت کو بہت مشکل پڑی کیونکہ عوام مشرف آمریت سے تنگ بھی آ چکے تھے اور لندن کے سیاسی اکٹھ کے خلاف اس کا کوئی پروپیگنڈہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکاجس کے بعد نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ (ن) لیگ کے لئے بھی اندرون ملک سیاست کے دروازے ایک بار پھر کھل گئے اور محترمہ کے علاوہ شریف برادران پر ملک میں واپسی پر تمام پابندیاں ہٹانے پر جنرل مشرف کو مجبور ہونا پڑا،اس کے بعد مشرف کی رخصتی، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی اقتدار میں واپسی کی راہیں کھل تو گئیں، مگر جنرل مشرف کے خلاف اقدام اٹھانے کی وجہ سے ایک بار پھر (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف مقتدرہ کی کوششوں کا آغاز ہو گیا اور اس حوالے سے اب تمام حقائق کھل کر منظر عام پر آ چکے ہیں جبکہ نواز شریف حکومت کو چلتا کرنے کے حوالے سے ایک اور لندن پلان بھی سامنے آنے کی داستان زبان زد عام ہے جس کیلئے لندن میں ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان کے درمیان ملاقات کروائی گئی، اسلام آباد میں دھرنا دلوایا گیا اور عدالتوں میں”دو سال ضائع کرنے والے نظریے” کو بروئے کار لا کر لگ بھگ چار سو ایسے افراد کے خلاف آف شور کمپنیوں میں سے صرف ” دیگ میں سے ایک دانہ ” میاں نواز شریف کو چن کر ان کے خلاف جے آئی ٹی کی مہربانیوں سے اقامہ کے نام پر جو شرمناک داستان گھڑی گئی اور بلیک لا ڈکشنری کو بروئے کار لا کر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ”جرم ” میں تاحیات نااہلی دریافت کی گئی، وہ تاریخ کا حصہ ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عدالتی قتل کو اب خود ہماری عدالتیں سننا اور اس کو کسی بھی مقدمے میں بطور ریفرنس استعمال کرنے سے گریزاں بلکہ ” شرمندہ شرمندہ ” ہیں۔ اب یہ نااہلی بھی خود انہی جج صاحبان کے ماتھے کا جھومر بن کر سیاہی میں تبدیل ہو چکی ہے، مگر اخلاقی پستی کا معیار یہ ہے کہ اس ناجائز فیصلے پر شرمندگی کا احساس کر کے ازخود اس کے خلاف سوو موٹو لینے کی ضرورت محسوس کر کے اسے ختم کرنے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آ رہی ہے۔ اس حوالے سے نظیر صدیقی کا یہ شعر ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا
اس حوالے سے پروفیسر سحر انصاری نے بھی کیا خوب کہا اور محولہ مقدمے پر ان کا یہ شعر کتنا فٹ بیٹھتا ہے کہ
سزا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کہ جرم بازِ صداقت سے میں نہیں آیا
بہرحال اب لندن پلان کو اٹھا کر جنیوا پہنچا دیا ہے جہاں ان دنوں پاکستان کے سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے تحت ایک کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے، اس ڈونرز کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف وہاں پہنچے ہیں جبکہ لندن سے میاں نواز شریف اور مریم نواز ذاتی دورے پر پہنچے ہیں اور خاندان کے ان افراد کے میل ملاقات کے حوالے سے بھی خبریں آ رہی ہیں، مگر یار لوگوں نے اس میں سے بھی کئی باتیں نکال لی ہیں، ایک تو کچھ سیاسی مخالفین محترمہ مریم نواز پر وہاں اپنے چہرے کی سرجری پر طنزیہ ٹویٹس کر رہے ہیں،( جبکہ یہ ان کا بالکل ذاتی مسئلہ ہے جس پر کسی کو بھی معترض نہیں ہونا چاہئے) اور کچھ ٹرولز میاں برادران کے(مابین کسی ممکنہ سازش کے تانے بانے بننے کی خبریں پھیلانے) کے حوالے سے سازشی تھیوریاں تلاش کر رہے ہیں، گویا اب لندن پلان کی جگہ جنیوا پلان کے چرچے ہوں گے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف برسر اقتدار تھے تو اس وقت قوت نافذہ کے بعض اہم کرداروں نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو لیگی حکومت کو گرانے کیلئے وہاں اکٹھا کیا تھا وہ کیا تھا؟ کیا وہ ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی کیلئے لندن سازش نہیں تھی، یاد رہے کہ تب سے عمران خان کے اقتدار سے آئینی تقاضوں کے عین مطابق علیحدگی تک(تحریک عدم اعتماد کے ذریعے) ایک سازشی نظریئے کو بڑے دھڑلے سے آگے بڑھایا جا رہا تھا کہ ملک میں ایک بار پھر صدارتی نظام لا کر عمران خان کو کم از کم دو یا تین ٹرم تک صدر کے عہدے پر متمکن کرا کے درپردہ کچھ قوتیں اقتدار پر مکمل دسترس حاصل کرنا چاہتی تھیں، اگرچہ اس کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی ہے مگر اب یہ مبینہ مجوزہ منصوبہ مکمل طور پر طشت ازبام ہو کر سامنے آ چکا ہے، یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبال نے اگرچہ تہران(ایران) کو عالم اسلام کا جنیوا قرار دیا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ اسلامی ممالک ایک بار پھر متحد و متفق ہو کر اپنے لیے تہران کو مرکزی حیثیت تسلیم کر کے آئے بڑھیں گے تو وہ اپنی نشاط ثانیہ کو کامیاب کرا سکیں گے، مگر ان کی یہ پیشگوئی صرف خواہش تک محدود رہی، کیونکہ اہل مغرب نے ایشیا کے اس مسلمان جینوا میں جس طرح سازش کر کے آگ جھلسا دی ہے اور وہاں(ایران کے کونے کونے سے) تشویشناک خبریں آ رہی ہیں وہ قابل توجہ بھی ہیں، قابل افسوس بھی اور خود اہل فارس کو اس پر توجہ دیکر اپنے گھر میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی فکر ضرورکرنی چاہئے۔
ضد اور انا کے بتوں کو توڑ کر ہی وہاں امن کا قیام ممکن بنایا جا سکتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں سیاست جس نہج پر جا رہی ہے وہ بھی تشویشناک امر ہے اور انا پرستی کی دیواروں کو مزید اونچا کرنے، جھوٹ بولنے،افترا پردازی کرنے اور بے بنیاد الزامات لگانے سے ہم اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں، اس سے اجتناب بہتر ہے مگر کون سوچے، چلیں میں اور آپ ہی سوچ لیتے ہیں۔ بقول خالد خواجہ
جس میں سچ بولنا بھی ممکن ہو
ایسی محفل کا انعقاد کرو

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''