مہنگائی پر کنٹرول کس کی ذمہ داری؟

(زاہد میروخیل) خیبر پختونخوا میں گذشتہ چند روزکے دوران مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، 20کلو آٹا کا تھیلا کم از کم5 سو روپے مہنگا کر دیا گیا ہے، سی این جی کی بندش کے باعث گاڑیوں کا کرایہ دوگنا ہوگیا ہے اور مارکیٹ میں خوراکی اشیاء لوگوں کی دسترس میں نہیں رہی ہیں، اٹھارویں ترمیم کے تحت مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، 2020ء میں ایک قانون کے تحت 32اشیاء کی قیمتوں کے تعین اور اس کی نگرانی صوبائی حکومت کا کام ہے اس فہرست میں آٹا اور دیگر چیزیں بھی شامل ہیں تاہم صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے یہ تمام ذمہ داری شہباز شریف حکومت پر عائد کر دی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر صوبے اور وفاق کے درمیان نئی دوریاں کھڑی کی جا رہی ہیں اور مخالفانہ بیانات دئیے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں حکومتوں کے درمیان جاری کھینچا تانی سے عوام کا کوئی مداوا نہیں ہو رہا ہے اس وقت خیبرپختونخوا میں مکمل طور پر غیر یقینی کی صورتحال ہے۔
وفاقی حکومت میں شامل پی ڈی ایم کی جماعتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور صوبائی حکومت کے عہدیدار گذشتہ ایک ہفتہ سے چوک یادگار پشاور میں مہنگائی اور لاقانونیت کیخلاف احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں، اس کیمپ میں صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت شریک ہو رہی ہیں اور ہر روز احتجاج کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی مہنگائی کیخلاف احتجاج شروع کر دیا ہے پیر کے روز سے شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک میں جماعت اسلامی نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور جنوری کا مہینہ اس احتجاج میں گزارنے کا شیڈول جاری کیا ہے ہر ہفتے صوبہ کے مختلف ڈویژنز میں احتجاج کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس کے علاوہ گذشتہ روز جمعیت علماء اسلام نے بھی مہنگائی کیخلاف تحریک کا آغاز کر دیا ہے، پشاور میں احتجاج کے بعد آئندہ اتوار15جنوری تک صوبے کے دیگر اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے، پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج میں تمام الزامات وفاقی حکومت پر لگائے جا رہے ہیں جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے احتجاج کا دائرہ کار صوبائی عہدیداروں کی ذمہ داریوں پر سوالات اٹھارہا ہے خیبر پختونخوا میں تقریبا45میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے جس میں سے بمشکل13لاکھ میٹرک ٹن گندم صوبہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی گندم پنجاب یا بیرونی منڈی سے خریدنے کی روایت ہے۔
گذشتہ برس بھی پنجاب کے ساتھ ساتھ یوکرائن سے گندم کی خریداری کی گئی تھی اب کے برس روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت نے گندم کی خریداری نہیں کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خیبر پختونخوا میں گندم موجود نہیں بلکہ مردان ، چارسدہ اور پشاور میں محکمہ خوراک کے گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں اور یہ گندم گوداموں میں خراب ہونے جا رہا ہے اس طرح گیس بھی صوبہ خیبر پختونخوا کی پیداوار ہیں ملک بھر میں سی این جی سٹیشن کھلے ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کے گیس والے شہروں میں سی این جی کو گذشتہ ایک ہفتے سے بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تمام کاروبار معطل پڑے ہیں اور ٹرانسپورٹ کا پہیہ رک گیا ہے
ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں اور رکشا کو لوگوں نے گھروں اور پارکنگ سٹینڈز پر کھڑا کر دیا ہے صوبائی حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر بھی خاموشی اختیار کی گئی ہے جب یہ دونوں چیزیں صوبائی پیداوار ہیں تو پھر اچانک ایک دور روز کے دوران ایسا کیا ہو گیا کہ ہر چیز مارکیٹ سے اٹھا لی گئی یا پھر اس کی قیمت میں معمول کی قیمتوں سے کئی گنا کا اضافہ کیا گیا، بہت سے لوگ اس پر اپنی بساط کے مطابق رائے زنی کر رہے ہیں لیکن دراصل یہ معاملہ خوراکی اشیاء یا ایندھن کی کمی کا نہیں بلکہ دونوں حکومتوں کے درمیان تنازع اس بحران کا سبب ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت خیبر پختونخوا کے حصے کے فنڈز کو لے کر گذشتہ8مہینوں سے وزیراعلیٰ محمود خان اور ان کی کابینہ کے وزیر وفاقی حکومت پر چڑھائی کئے ہوئے ہیں، صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ گذشتہ برس اپریل میں حکومت میں آنے کے بعد وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کے حصے کے190ارب روپے روک رکھے ہیں، ان فنڈز کی عدم ادائیگی سے صوبہ میں گھمبیر مالی مسائل نے جنم لیا ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر کام معطل ہوگیا ہے
اس کے علاوہ بھی جاری اخراجات کیلئے پیسے نہ ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بعض لوگوں نے یکدم سے مارکیٹ میں آٹا کا بحران پیدا کر دیا اور اب پشاور اور اس کے آس پاس کے اضلاع میں لوگ ٹرکوں کے پیچھے بھاگ کر سستا آٹا لینے کیلئے سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں، اس بحران سے ایک روز قبل چیف سیکرٹری کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا جس کے بعد میڈیا کو جاری بیان میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ صوبہ میں آٹا کا بحران پنجاب حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا میں آٹا اور گندم کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جب تک پنجاب سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، خیبر پختونخوا کے آٹا مارکیٹ میں بھی بحران کا سلسلہ جاری رہے گا اور قیمتیں مزید بڑھیں گی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے گندم اور آٹا کی ترسیل پر پنجاب سے براہ راست خیبر پختونخوا میںکوئی پابندی نہیں اور وفاقی حکومت اس سلسلے میں کسی قسم کی رکائوٹ نہیں کھڑی کر رہی
اس کے علاوہ آٹا ڈیلرز کا بھی کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پنجاب سے ترسیل ہونیوالا آٹا مہنگا ہوا ہے، اس کیلئے ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ترسیل پر بندش کے ساتھ ساتھ اٹک اور دیگر مقامات پر آٹا ڈیلرز سے بھاری رشوت وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے ہر ٹرک پر پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک رشوت وصول کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، رشوت کے یہ پیسے آٹا کی قیمت میں ملاکر20کلو اور40کلو تھیلے کا آٹا راتوں رات مہنگا کیا جا رہاہے، دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز، تحصیلداروں اورمحکمہ خوراک کے سینکڑوں اہلکاروں اور افسران کی فوج ظفر موج کے باوجود بھی بازاروں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی نگرانی اور اس پر کنٹرول رکھنے میں بری طرح ناکام نظر آئی ہے شہروں میں لوگوں نے مصنوعی مہنگائی کیلئے گودام بھر دئیے ہیں اور ہر چیز ذخیرہ کر دی گئی ہے ایسے میں نرخناموں کی چیکنگ اور اشیاء کی قیمتوں سے متعلق رپورٹنگ دوبارہ سے محکمہ ایجوکیشن کے انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کے حوالہ کر دی گئی ہے
اب بازاروں میں محکمہ تعلیم کے اہلکار چیزوں کی مانیٹرنگ کریں گے اور ضلعی انتظامیہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی، ایسے میں آئندہ دوماہ کے بعد رمضان کا مہینہ بھی شروع ہونے جا رہا ہے جس کے دوران یہ قیمتیں مزید بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے اس صورتحال میں صوبائی حکومت نے ایکشن نہیں لیا اور چیزوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے پر توجہ نہیں دی تو اس کے نتائج بہت ہی خوفناک ہوں گے اور اس کے بعد وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازع کی اس میں کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی امن وامان کی صورتحال مزید خراب ہونے اور خدانخواستہ ایک بڑے پیمانے پر غیر یقینی پھیلنے کا خطرہ ہے اس لئے صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے یہ تمام ذمہ داری قبول کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

مزید پڑھیں:  امریکی مظاہروں نے 1930 کے جرمن مظاہروں کی یاد تازہ کر دی، نیتن یاہو