لے گیا چھین کے کون آج تراآٹا ونان؟

بھوکے سے کسی نے پوچھا ‘ دوجمع دو کتنے ہوتے ہیں ‘ اس نے جواب دیا چار روٹیاں ‘ آج پھر ملک بھرمیں ویسی ہی صورتحال ہے’ اور تواور ڈاکوئوں نے بھی سکھرمیںسستے آٹے کے سٹال سے بیس تھیلے آٹے کے چھین لئے اس پرایک پاکستانی فلم کا ایک نغمہ یادآگیا ہے جس میں صورتحال کے تناظر میں تھوڑی سی تبدیلی توبنتی ہے یعنی
لے گیا چھین کے کون آج تراآٹا ونان؟
بے قراری تجھے بندے کبھی ایسی تو نہ تھی
اب جدھرنگاہ دوڑائو روٹیوں اور آٹے کا بحران سر اٹھا کر بول رہا ہے ‘ اور وہ دن بالکل سامنے ہی ہے جب اسی قسم کے بحران میں آج سے لگ بھگ سات دہائیاں یا زیادہ پہلے لوگ نانبائیوں کی دکانوں کے آگے قطار اندر قطار کھڑے اپنی باری کا ا نتظار کرکے روٹیاں حاصل کرتے تھے ‘ اس صورتحال پر اکبر سرحد مرزا محمود سرحدی مرحوم نے بہت عمدہ طنزیہ اشعار سے فکاہیہ شاعری کا دامن بھر رکھا ہے ‘ انہوں نے کہا تھا
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ نہ مکان ملا نہ دکان ملی
جو مکاں ملا تو دمشق میں ‘ جودکان ملی تو حجاز میں
کرم اے شہ عرب وعجم ‘ ہے وہ روٹیوں کا پرابلم
کھڑے ہم ہیں ایسے قطار میں کہ کھڑے ہوں جیسے نماز میں
اب خدا جانے اس صورتحال کو” چور مچائے شور”سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یا نہیں کہ نہ صرف سرکار بلکہ حزب اختلاف بھی آٹے کے اس بحران کے لئے ایک دوسرے کو مطعون کر رہے ہیں ایک دوسرے پرالزام تراشی کے ہنگام ان اطلاعات پرکوئی درست بات کرنے کو تیارہی نہیں ہے ‘ جو خبروں ‘تحریروں اور تبصروں کی چھلنی میں سے چھن چھن کرعوام تک پہنچ رہی ہیں کہ آٹا بھاری مقدار میں افغانستان تو سمگل کیا جارہا ہے مگر اپنے ملک کے عوام کو فراہم نہیں کیا جا سکتا ‘ اس حوالے سے پنجاب کا رویہ کوئی نیا نہیں ہے ‘ آج سے بہت عرصہ پہلے جب جنرل مشرف کے دور میں یہی پرویز الٰہی ملک کے بڑے صوبے کا حکمران تھا تب بھی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو گندم ‘ آٹے وغیرہ کی فراہمی بند کر دی تھی ‘ تب ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ تب کے صوبہ سرحد میں سردار مہتاب خان عباسی کی حکومت تھی اور صوبائی حکومت نے باہر سے (ناقص ترین) گندم مہنگے داموں درآمد کی تھی اس کو چونکہ بارشوں نے متاثر کر رکھا تھا اس لئے اس سے بنے آٹے کوکسی کل قرار ہی نہیں تھا ‘ یعنی اس آٹے سے روٹی بنتی ہی نہیں تھی ‘ مستزاد یہ کہ فلورملوں نے چوکر ملا ملا کر اس آٹے کی کوالٹی کو برباد کرکے رکھ دیا تھا ‘ اور بعض ملوں نے توسوکھی روٹیاں بھی خرید خرید کر ساتھ ہی پسانا شروع کر دی تھیں نتیجہ ظاہر ہے ‘ وہی لوگ جانتے ہیں جو یہ ناقص آٹا خریدنے پر مجبور تھے ‘ اور جس کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں عام ہوگئی تھیں یعنی ساتھ ہی ڈاکٹروں کے بھی وارے نیارے ہوگئے تھے اور دوائوں کی کمپنیوں کامنافع سونے پرسہاگہ ۔ مگر جیسا کہ آج لیڈران کرام زبانی کلامی شور مچا رہے ہیں اس دور میں بھی ویسی ہی کیفیت تھی یعنی بقول شاعر
قوم کے غم میںڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کوبہت ہیں مگرآرام کے ساتھ
ظلم کی حدیں تو یہ ہیں کہ بے چاری گھریلو خواتین نے چادریں ‘ برقعے اوڑھ کرسستے آٹے کی تلاش شروع کردی ہے جبکہ نانبائیوں نے پرانا وتیرہ اختیار کرتے ہوئے روٹیوں کی یا تو قیمت میں اچانک اضافہ کردیا ہے یا پھرجہاں لوگ مہنگی روٹی خریدنے سے احتراز کر رہے ہیں وہاں پرانا آزمودہ نسخہ سامنے لے آئے ہیں اور روٹی کاوزن اس قدر کم کر دیا ہے کہ پھلکوں اور روٹی میں تمیز کرنا مشکل ہوگئی ہے بقول مرزا محمود سرحدی
دیکھئے نانبائیوں کا کمال
خوب سوچا ہے سب نے مل جل کے
اٹھتے ہی کنٹرول آئے گا
روٹیوںکے بنا دیئے پھلکے
خبر ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر خان اورجسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے وفاق اور صوبے کے نمائندوں کو بلا کر استفسار کیا ہے کہ آٹے سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ‘ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ فاضل عدالت نے اہم قدم اٹھایا ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ جس طرح مبینہ طور پر پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخوا کے لئے گندم اور آٹے پرغیر آئینی ‘ غیر قانونی اور غیراخلاقی طور پرپابندی لگا کرگندم اور آٹا افغانستان سمگل کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ‘ جس سے راتوں رات نہ صرف پنجاب بلکہ مبینہ طور پر خیبر پختونخوا کے بعض ”اہم” لوگ اربوں کما رہے ہیں ‘ اس صورتحال کے خلاف بھی انکوائری کا حکم صادر کر دیا جاتا’ جبکہ انکوائری بھی عدالتی کمیشن کے ذریعے ہوتی توشاید اصل چور سامنے آجاتے ‘ بعض لوگ یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کاحصہ ہے اور اس میں ایک سیاسی جماعت کاکردار نظر انداز نہیں کیاجا سکتا جس کا سربراہ بھی مبینہ طور پر اس سازش کی پشت پر ہے ‘ اب حقیقت کیا ہے یہ تو غیر جانبدار عدالتی کمیشن ہی تحقیقات کے بعد بتا سکتا ہے ‘ تاہم بعد از خرابی بسیار جس طرح صوبائی حکومت نے خبروں کے مطابق فلورملوں کاکوٹہ بڑھا دیا ہے جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ اب آٹا سستا ہوجائے گا تو یہ اقدام تب کیوں نہیں اٹھایاگیا جب اس مسئلے نے سراٹھانا شروع کردیا تھا ‘ ظاہر ہے ان شکوک و شبہات کو تقویت ہی پہنچانا تھی کہ ”منظور نظر افراد” کو اس بحران سے پوری طرح مستفید ہونے کا موقع فراہم کرکے عوام کی چیخیں نکلوانا تھیں ‘ وگر نہ اب صوبائی وزیر خوراک کا یہ بیان کیا معنی رکھتا ہے کہ ”صوبے میں گندم کا کافی سٹاک ہے ‘ آٹا بحران کا خدشہ نہیں” حالانکہ آٹا بحران توگزشتہ کئی روزسے سمندر میں مدو جزر کی طرح بلند لہروں میں تبدیل ہو کر عوام کوخس و خاشاک کی طرح بہا لئے جارہا ہے اور روٹی جو صرف تین چار روز پہلے بیس روپے میں ملتی تھی ‘ اب وہ پچاس فیصد مہنگی ہو کر تیس روپے جبکہ روغنی نان25 سے بڑھ کر35 اور پراٹھا نان پچاس روپے کی ہوچکی ہے ۔ یہ سارا کیا دھرا مبینہ طور پر ان سابق حکمرانوں کا ہی ہوسکتا ہے جن کے بارے میں مرزا محمود سرحدی نے کہا تھا
کہہ رہے تھے ایک جلسے میں کوئی سابق وزیر
کوٹھیاں تک ہم نے بنوائی تھیں اپنے واسطے
باوجود اس کے بھی سنتا ہوں کہ کچھ کج فہم لوگ
کہتے پھرتے ہیں ہمارے کام تعمیری نہ تھے

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے