معاشی تباہی روکنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل نے پاکستان کو ایک غیر واضح صورت حال کی طرف دھکیل دیا ہے، دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے یہ ایک اہم سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا ملک میں عام انتخابات میں تاخیر ابھی بھی ایک ناقابل قبول آپشن ہے، وفاق میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت اگست میں قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے انتخابات کے انعقاد کے سخت مخالف ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ اور پھر اسمبلی تحلیل سے حوصلہ پانے والے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے حکومت پر قبل از وقت انتخابات کے لیے دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ پھر انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کا عندیہ دے کر اتحادی حکومت کو ایک اور چیلنج دینے کی کوشش کی، وہ اپنی پارٹی کے ارکان کے اسمبلی میں دوبارہ جانے کے لیے کہنے پر بھی غور کر رہے ہیں، جہاں سے وہ پہلے مستعفی ہو چکے تھے۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق اس حوالے سے قانونی صلاح و مشورے جاری ہیں۔ عمران خان نے مبینہ طور پر اپنے پارٹی رہنماؤں کو یہ بھی بتایا ہے کہ پی ٹی آئی ایک عبوری سیٹ اپ کے انتظامات پر مشاورت کا حصہ بننے کے لیے اسمبلی میں واپس جانے پر غور کر سکتی ہے۔ جو آئینی طور پر انتخابات کی نگرانی کے لیے لازمی ہے۔ لیکن جب عمران خان نے قومی اسملبی میں واپس جانے کا ارادہ کیا تو صورتحال نے اس وقت ایک اور رخ لے لیا جب پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کے35 ارکان اور پھر دوسرے مرحلے میں مزید35 ارکان کے استعفے سپیکر نے قبول کر لیے، پی ٹی آئی رہنماؤں نے اسے حکومت کا افسوس ناک اقدام قرار دیا ہے۔
ملکی سیاست ملک میں غیر یقینی کی کیفیت برقرار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال تیزی سے مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اگر ملک کے دو اہم صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات نہ ہوئے تو اس سے مزید سیاسی پیچیدگیاں، یہاں تک کہ انتشار بھی پھیل سکتا ہے، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوں گے اور وہاں پانچ سال کی نئی مدت کے لیے حکومتیں قائم ہوجائیں گی تو سوال یہ ہے کہجب ملک بھر میں قومی اسمبلی میں عام انتخابات ہوں گے تو کیا یہ انتخابات ان دو صوبوں میں غیر جانبدار نگران انتظامیہ کے تحت نہیں ہوں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ملکی تاریخ میں منفرد اقدام ہوگا کیونکہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہمیشہ ایک ہی وقت میں ہوئے ہیں۔
دریں اثناء کراچی اور حیدرآباد سمیت شہری سندھ میں بلدیاتی انتخابات نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے قبول شدہ نتائج کی بجائے نئے سیاسی تنازع کو جنم دیا ہے۔ ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے خلاف احتجاجاً انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم الیکشن کمیشن نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوئے لیکن بہت کم ٹرن آؤٹ رہا، جس سے بلدیاتی انتخابات کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، بلدیاتی انتخابات میں اگرچہ پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن وہ اکثریت سے محروم رہی۔ دیگر جماعتوں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم نے پی پی پی پر پری پول دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے انتظامی تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تنازعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہاں امیدواروں کی طرف سے انتخابی نتائج کو کسی طور پر منصفانہ انداز میں قبول نہیں کیا جاتا، بدقسمتی سے صوبائی اور قومی انتخابات کے نتائج کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔
اگرچہ اتحادی حکومت عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو پورا کرنے سے انکاری ہے لیکن اس کے باوجود وسیع پیمانے پر یہ تاثر موجود ہے کہ حکومت کو عام انتخابات کرانے پڑ سکتے ہیں۔ اس صورت حال نے سیاسی جماعتوں کی توجہ انتخابی مہم کی طرف مبذول کرا دی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو کچھ چیلنجز کا بھی سامنا ہے، مثلاً پی ٹی آئی کی نچلی سطح پر تنظیمی خامیاں سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں معمولی کامیابیوں سے عیاں ہوئی ہیں حالانکہ توقع تھی کہ پی ٹی آئی زیادہ نشستیں لے گی، چنانچہ اسے اب بھی اپنے لیڈر کی واضح مقبولیت کو حقیقی انتخابی طاقت میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) بھی گہری اندرونی تقسیم کا شکار نظر آرہی ہے، اس کی دھڑے بندی اور تنظیمی خلفشار نے پچھلے سال کئی ضمنی انتخابات میں اس کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور اس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ صوبائی سطح پر پارٹی کی سمت یکساں اور واضح نہیں ہے۔یہ دھچکا اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے پنجاب میں بھی پارٹی کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں ملک میں جاری سیاسی کھینچا تانی کا مطلب یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں نظم و نسق ترجیح نہیں ہے اور اس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے خاص طور پر معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل پالیسی اقدامات کی بجائے سیاسی لڑائیاں اور تصادم معمول بن گیا ہے۔ غیر یقینی کی صورتحال کا دور دورا ہے جس سے معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، اگر موجودہ سیاسی افراتفری جاری رہی تو اس سے بحران کا شکار معیشت میں بہتری کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے اور عوام کی حالتِ زار مزید ابتر ہو جائے گی۔
سیاسی و انتخابی خدشات کے باعث ہی پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کے نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے درکار اقدامات کرنے سے گریز کیا اور پھر اس تاخیر نے معاشی غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے ہونے والی کمی سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام سے معاشی تباہی کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان ایک ساتھ مل بیٹھیں، نہ صرف معیشت کو بچانے کے لیے فوری اقدامات پر اتفاق کریں بلکہ یہ بھی طے کریں کہ عام انتخابات کب منعقد ہونے چاہئیں۔
(بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے