کیا دوا کیا دعا کرے کوئی

گزشتہ دو تین روز سے ایک ویڈیو برقی ابلا غ کے زیر پھیل رہی ہے جس میں ایک اسکول کی عمارت کے سائن بور ڈ پر نمایا ں طور پر اسکو ل کا نا م نامی نقش CIVILIZATION SCHOOL جو غالباًکراچی کے معروف محلہ نا ظم آبا د میں آباد ہے وہاں اس ویڈیو کے مطابق ایک درد نا ک بلکہ شرم ناک واقعہ پیش آیا ویڈیو میں اس اسکول کے سامنے ایک طالب علم کے والد اہل پاکستان کو اسکول کا نظارہ کر تے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کے چہر ے کے دائیں جا نب کلک مل کر اسکو ل کے دیگر بچوں کے سامنے کھڑا کیا گیا اور کہا گیا کہ اس بچے پر طنزیہ ہنسی ہنسو ۔ بچے کا یہ جرم بیان کیاگیا کہ وہ اردو زبان میں بات کرتا ہے ، اس ویڈیو کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسے ملک میں جس کی قومی زبان اردو ہو اس میں زبان میں بات کر نا سنگین جر م ہے کہ بچے کو اس طرح ذلیل کیا گیا اور اس معصوم جان کی انا کو ٹھیس پہنچائی گئی کیا یہ سنگین جر م نہیں ہے ، اوپر سے طرفہ تما شا یہ کہ اسکول انتظامیہ طالب علم کے والد کی شکایت پرانتہائی قبیح جواب دے رہی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے ، بھلاکیو ںکچھ نہیں کر سکتے ، کیا ایسے ملک میںجس کے بانی قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا اور اس بارے میں کوئی لچک نہیں دکھائی تھی وہاں اب اردو بولنا جر م ٹھہر ا دیا گیا ہے ، اسکو ل کا انگریزی میںجو نا م ہے اس کے اردو میں معنی تہذیب اور تمدن کے ہیںکیا پاکستان کی تہذیب وتمدن یہ رہ گیا ہے کہ اپنی قومی زبان بولنے پر تضحیک کر دی جا تی ہے ، ہنو ز حکومت وقت کے کا ن پر بھی جوں تک نہ رینگی ، جس نے یہ حرکت کی ہے اسے معلو م نہیں کہ اردوزبان دنیا کی پانچ بڑی زبانو ں کی صف میں شامل ہے ۔ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ نے اردو کو اپنی آفیشل زبان میں شامل کرلیا ہے پاکستان میں اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم کی آڑ میں عوام و خواص کی تقسیم کی جا رہی ہے ۔ اردو کی تضحیک کر نے والے بتائیں کہ ان کو اردو زبان سے کیا چڑ ہے ، اردو زبان میں کیا ایسی کمی ہے جس کو یہ راندئہ درگا ہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں ، قیام پاکستان سے قبل ریاست حید رآباد میں اعلے ٰ درجہ تک کی تعلیم اردو زبان میں دی جا تی تھی جس میں میڈیکل کی تعلیم بھی شامل تھی۔
چین کے کتنے فی صد عوام ا نگریزی سے بلد ہیں کیاچین پسما ندہ ملک ہے ، جا پان ہے ہالینڈ ، جر منی ہے ، فرانسی ہے حتیٰ کہ اطالیہ( اٹلی ) میں اطالوی زبان نافذ ہے’ اسکول کالج’عدلیہ ‘عدلیہ ‘مقننہ ‘سرکاری’قومی سطح پہ ذریعہ تعلیم اطالوی۔ ہر درجہ کی تعلیم اطالوی میںاسی طرح اسپانیہ میںیونہی فرانس ‘ برطانیہ ‘جرمنی. پرتگال’ ترکی ‘ روس ‘ جاپان امریکہ حتیٰ کہ ننھے ممالک جیسے سویڈن میں ہر کاروبار زندگی و ذریعہ تعلیم سویڈش میں ناروے ساٹھ لاکھ سے کم آبادی اور سب کچھ مکمل طور نارویجن میںڈنمارک آبادی محض ستاون لاکھ اور تمام کچھ ڈینش میںمقابلے کے امتحان انکی اپنی زبانوں میںافسر شاہی کا کاروبار انکی اپنی زبانوں میںسرکاری احکامات ‘قانون سازی’عدلیہ کے فیصلے انکی اپنی زبانوں میںکیا ان ممالک میں کبھی کوئی ایسی تحریک چلی کہ مثال کے طور پہ اطالیہ میں فرانسیسی میں تعلیم دی جاتی ہو اور اطالوی زبان کو نافذ کرنے کے لئے تحریک چلانا پڑی ہو؟ یا فرانس میں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہو اور فرانس کے عامتہ الناس کو فرانسیسی کے لئے تحریک چلانی پڑی ہو؟ انگریزوں کے ذہنی غلا مو ں کو معلوم ہو نا چاہیے کہ سائنس کی زبان انگریزی نہیں ہے بلکہ یو نا نی ہے ، انگریزی دان ممالک بھی سائنس کی تما م اصلاحات یونانی زبان کی ہی استعمال کر تے ہیں مگر اپنے بچو ں کو تعلیم اپنے ملکی ہی زبان میں دیتے ہیں تو پاکستان کے ساتھ انگریزی کلب اپنا امتیاز اور برتری قائم رکھنے کے لئے کیوں زبردستی پاکستان پہ انگریزی مسلط کئے ہوئے ہے.پاکستانی قوم کی کتنی بدنصیبی ہے کہ اپنی زبان اردو میں نافذ کرنے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے جس ملک کی قومی زبان اردو ہی ہے ۔. آئین پاکستان میں درج ہے اور آئین کی رو سے آئین پاکستان کے بننے کے پندرہ
سال کے اندر اردو ہر سطح پہ نافذ ہو جانی چاہیے تھی. مگر بدقسمتی سے یوں نہیں ہونے دیا گیا پھر اعلی عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ اردو کو ہر سطح پہ نافذ کیا جائے مگر اس فیصلے پہ بھی عمل ہونا ہنوز باقی ہے ۔ کیا منافقت ہے کہ اسکو ل کا نام CIVILIZATION(تہذیب وتمدن )رکھا گیا ہے اور وہا ں راج اور بول بالا اپنے انگریز آقاؤں کا کیا جا رہا ہے تہذیب کا انھوںنے نا م ہی سن رکھا ہے تہذیب کیا اورخاص کر اسلا می تہذیب کیا ہو تی ہے اس کی زندہ مثال ترکی میں یو ں نظر آتی ہے کہ وہا ں ترک پارلیمان کے اسپیکر مصطفےٰ سینتوپ Mustafa Sentop کا کہنا ہے کہ پارلیمان اور سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھنے پر پابندی ختم کرنے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم پرتمام جماعتوں کا اتفاق ہوگیا ہے۔ چھ سو رکنی پارلیمان کے 366ارکان نے ترمیمی بل پر دستخط کردئے ہیں اور خیال ہے کہ قرارداد دو تہائی ووٹوں سے منطور ہوجائیگی جسکے بعد اسکی توثیق کیلئے استصواب رائے ہوگا اسپیکر صاحب نے توقع ظاہر کی ہے کہ14 مئی کو عام انتخابات کیساتھ اس ترمیم پر ریفرنڈم کرالیا جائیگا۔ترک آئین کے تحت سرکاری دفاتر اور پارلیمان میں خواتین کے سرڈھانکنے پر پابندی ہے ۔
روزنامہ صباح آن لائن کے مطابق اس سلسلے میں ایک آئینی بحران اسوقت پیدا ہوا جب 1999کے انتخابات میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی فضیلت پارٹی کی ٹکٹ پر محترمہ مروہ صفا قاوفجی رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ جب مروہ حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں چنانچہ انھیں دروازے پر روک لیا گیا۔ ڈاکٹر مردہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مردہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کردیا جس پر نہ صرف پارلیمان سے انکی رکنیت ختم کردی گئی بلکہ وزارت انصاف نے اس واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے فضیلت پارٹی پر ”سیکیولر ازم سے عدم وفاداری” کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا۔ مارچ2001 میں فضیلت پارٹی غیر قانونی قرار دیدی گئی۔ اللہ کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعد ایردوان کی قیادت میں اسلام پسند برسراقتدار آگئے اور2017میں مروہ پورے وقار کیساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقررکردی گئیں ، یہ ہے غیرت ایمانی و قومیت ۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!